• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے باوجود 16 بارمنی اولمپکس

صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے باوجود 16 بارمنی

وطن عزیز پاکستان نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایسے ایسے گوہر نایاب پیدا کئے جنہوں نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ ملک سے باہر عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں تو کھیلوں کے بڑے بڑے مرکز ہیں جہاں باسانی کھلاڑیوں کو ہر قسم کی تربیت فراہم کی جاتی ہیں لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان جہاں گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی نے اپنا راج قائم کیا ہوا ہے وہاں بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ نے کھیلوں کی سرگرمیوں کو دوام بخشا ہوا ہے۔ بلوچستان میں خصوصی طور پر کھیلوں کے حوالے سے ان کے کارناموں پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ ان کے تخلیقی سلسلۂ اسپورٹس میں کمال حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہیں ایک اچھے کوچ، استاد، بہترین اسپورٹس آرگنائزر پر جو قدرت نے ان کو دی ہے اس کی اگر کوئی مثال دی جائے تو اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ کو ان کی صلاحیتوں، کارکردگی اور اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، آئی اوسی ایوارڈ، نیشنل اسپورٹس ایوارڈز ملے۔ عطا محمد کاکڑ ایسے گوہر نایاب ہیں جنہیں پاکستان کی پرخلوص مٹّی نے جنم دیا۔

بلوچستان کے کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ بلوچستان منی اولمپکس گیمز کا مسلسل 16مرتبہ کامیابی کے ساتھ انعقاد کے حوالے سے بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 14ویں بلوچستان منی اولمپکس گیمز 15ویں بلوچستان گیمز اور 16ویں بلوچستان منی اولمپکس گیمز کا سلسلہ وار کامیاب ترین ایونٹس کیلئے اپنے گھر کی قیمتی اشیاء جن میں بیوی اور بچیوں کے زیورات، گھر کا قیمتی فرنیچر تک اپنے صوبے میں کھیلوں کے انعقاد کی خاطر فروخت کیں۔ قرض لے کر گیمز کرائے، کسی سے فنڈز، مالی امداد تک نہیں لی۔ معذور افراد کیلئے بلوچستان اسپیشل پرسن اولمپکس گیمز، چلڈرن اسپورٹس فیسٹول کے ساتھ ساتھ صوبائی اسپورٹس ایوارڈ تقاریب کی بنیاد بھی عطا محمد کاکڑ نے رکھی ہے۔

عرصہ 42سالوں سے خود کھلاڑیوں کی کوچنگ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بلوچستان کے کھیلوں کی جان اور بلوچستان کا سب سے پہلا صف اوّل کلب جس کا نام یوتھ کلب کوئٹہ ہے، یہاں سے اسپورٹس کا آغاز کیا۔ ورلڈ الیول کے کھلاڑیوں کی انہوں نے کوچنگ اور سرپرستی کے علاوہ باکسنگ کی قومی ٹیموں کو شعیب علی، محمد وسیم، رشید بلوچ، شریف محبوب، احمد عبدالمنان، عبداللہ رند شفاعت، محمد ارشد کاسی، فیض کاکڑ، عبدالقدوس، صلاح الدین، لعل شاہ، غنی مینگل جیسے کھلاڑی دیئے۔ اس کے بدلے میں حکومت بلوچستان کے اسپورٹس ڈپارٹمنٹ نے انہیں مسلسل نظرانداز کئے رکھا۔ ان کے شاگرد اس بات پر حیران ہیں کہ ایک ایسی شخصیت جنہوں نے تراش تراش کر قومی ہیروز دیئے۔ کبھی زندگی میں ایک روپیہ تنخواہ مراعات یا سہولیات حاصل نہیں کی۔ کسی صوبے میں کھیلوں اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کیلئے عملی طور پر کوشاں ہیں اور متحرک کردار ادا کر رہے ہیں مگر افسوس ناک طور پر انہیں جس طرح کی پذیرائی اور داد ملنی چاہئے تھی وہ نہیں ملی۔ عام عوام کی سطح پر تو لوگ ان کی بہت زیادہ عزت و احترام کرتے ہیں۔ عطا محمد کاکڑ پنجاب پختونخواہ یا سندھ میں ہوتے تو ضرور صوبے کی اہم شخصیات ان کو یاد کرتیں مگر یہاں ایسی روایت قائم نہیں۔ جس شخص نے پاکستان کی اسپورٹس کی تاریخ میں ایسی مثال قائم کی جو 70سال میں کوئی بھی نہیں کر سکتا، وہ عطا محمد کاکڑ نے کر دیا ہے۔ 

ان کے عالمی لیول کے شاگردوں نے پوری دنیا دیکھ لی ہے۔ عطا محمد کاکڑ نے کبھی غیر ملکی دورے نہیں کئے، نہ کبھی ٹیم کے ساتھ بہ حیثیت کوچ یا منیجر گئے۔ کبھی اپنی ذات کیلئے نہیں کہا ہے۔ آج ان کے 80ہزار سے زائد شاگرد ہیں۔ بہت سے شاگرد پاکستان آرمی، ریلوے، واپڈا، پولیس، انتظامیہ، افسران ممبران اسمبلی، سیاسی لیڈر وزیر بن چکے، کسی کے پاس نہیں گئے اور نہ کسی کو کہا کہ کھیلوں کے انعقاد کیلئے ان کی مدد کریں۔ ان کو کھیلوں کے مثالی فروغ، کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے طور پر دیا گیا۔ بلوچستان کی پہچان وطن عزیز پاکستان کی جان ہے۔

پوری قوم ان پر فخر اور ناز کرتی ہے۔ ملک اور صوبے کے سابق حکمرانوں سردار فاروق لغاری، غلام اسحاق خان، مرزا اسلم بیگ، آصف علی زرداری، نواب ذوالفقار مگسی، رفیق احمد تارڑ، نواب اکبر خان بگٹی، سردار گل محمد جوگیزئی، جنرل موسیٰ خان، سردار رحیم درانی، نواب اسلم رئیسانی، نواب ثناء اللہ زہری، راحیلہ حمید خان درانی، ڈاکٹر مالک بلوچ، امیرالملک مینگل، امان اللہ یاسین زئی، زمرک خان اچکزئی سب نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ان کی حقیقت اسپورٹس دوستی کو تسلیم کیا۔

عطا محمد کاکڑ اس وقت بھی اپنے کلب میں نوجوانوں کو خود اپنی نگرانی میں تربیت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک ادارے کی شکل میں عملی طور پر نظر آ رہی ہے۔ کبھی قومیت، مذہب، نسل کو سامنے نہیں رکھا بلکہ انسانیت کے ناطے انسان دوستی کی فضاء قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ بچّے، بوڑھے، نوجوان سب ہی ان کے کلب آتے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں سیاسی لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنی حمایت کی یقین دہانی کراتے ہیں مگر عطا محمد کاکڑ ایسی کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کو اسپورٹس سے دور رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ وطن پرستی پاکستان سے پیار کرنے کو اوّلیت دی۔ ملک کے تمام سیاسی رہنما ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 

عطا محمد کاکڑ کے بارے میں پاکستان باکسنگ کی تاریخ رقم کرنے والے مرحوم پروفیسر انور چوہدری کے یہ فقرے بہت موزوں لگے کہ عطا محمد کاکڑ بڑی پہلودار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ عہد حاضر کے نہ صرف بہت بڑے اسپورٹس مین ہیں بلکہ اس خطّے کے عظیم رہنما ہیں۔ ان کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے کمالات سے نوازا ہے کہ کھلاڑیوں کی تربیت، عالمی لیول پر مقام دلانا پھر کھیلوں کے فروغ کیلئے بلوچستان اولمپکس گیمز کا انعقاد پھر معذور افراد کیلئے بچّوں کیلئے چلڈرن اسپورٹس جیسی تقاریب قابل اعتراف ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین