• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتیں تبدیل ہوجائیں، پالیسز میں تسلسل رہنا چاہیے

حکومتیں تبدیل ہوجائیں، پالیسز میں تسلسل رہنا چاہیے

جون اورجولائی کے مہینے عالمی سیاست کے اعتبار سے بڑے ہنگامہ خیز رہے۔ جولائی کی 25 تاریخ کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے، جس میں عمران خان کی تحریکِ انصاف مُلک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ انتخابی نتائج اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں اُسے مرکز کے ساتھ، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بھی برتری حاصل ہے۔ نئی حکومت کو جہاں اندرونِ مُلک اپنے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کرنی پڑے گی، وہیں اُسے خارجہ امور پر بھی سخت آزمائش سے گزرنا ہوگا، کیوں کہ عالمی اور علاقائی سطح پر جو سیاسی، معاشی اور عسکری تبدیلیاں گزشتہ برس سے شروع ہوئی تھیں، اب وہ نفاذ کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا محور اور مرکز ایشیاء ہی بنا ہوا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں دوبارہ صف بندی ہو رہی ہے، تو ایران، امریکا تنازع بھی اپنے عروج پر ہے۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان، افغانستان اور پاکستان، بھارت کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر رابطے ہو رہے ہیں، جب کہ جنوب مشرقی ایشیاء میں شمالی کوریا کا ایٹمی معاملہ بھی حل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 

امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دنوں میں کئی بڑے فیصلے کیے، جن کے اثرات دنیا بَھر میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ سنگاپور میں ہونے والی ٹرمپ، کم ملاقات میں کوریا کے ایٹمی مسئلے کے حل کے لیے روڈ میپ کا تعیّن ہوا۔ نیز، عالمی ٹریڈ وار میں شدّت آئی اور وہ بیانات اور دھمکیوں کے مراحل سے گزر کر اب باقاعدہ ٹیکس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس میں ایک طرف امریکا اور چین ایک دوسرے کی مخالف سمت کھڑے ہیں، تو دوسری جانب، امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کے درمیان بھی شدید تنائو سامنے آیا ہے۔ علاوہ ازیں، ہیلسنکی میں ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان وَن ٹو وَن ملاقات ہوئی، جس میں ایٹمی ہتھیاروں میں کمی سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک کے معاملات پر بات ہوئی۔ اُدھر ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے امریکی انخلا کے بعد خطّے میں نئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی صُورتِ حال میں ایران کا کیا کردار ہوگا اور عرب مُمالک کیا کریں گے، پھر یہ کہ اسرائیل کے نئے جارحانہ انداز کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں یہ ایک بڑا سوال ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہونے جا رہی ہے اور یہ کہ اِن حالات میں پاکستان اپنا کردار کیسے ادا کرے گا؟

ہم نے بار بار اس اَمر کی جانب توجّہ دلوائی ہے کہ پالیسز کا تسلسل عظیم قوموں کی ایک اہم نشانی ہے۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن اُن کے معاشی اور خارجہ امور کا تواتر برقرار رہتا ہے۔ جن مُمالک میں جمہوریت ہے، وہاں لانگ ٹرم معاشی اہداف متعیّن کیے جاتے ہیں، جو دس سے پچاس سال تک پر محیط ہوتے ہیں۔ وہاں حکومتیں بدل جاتی ہیں، لیکن لانگ ٹرم اہداف کے حصول کی پالیسز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلے میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان انتخابی معرکوں کے باوجود، مفاہمت نظر آتی ہے۔ اسی طرح یک پارٹی نظام رکھنے والے مُلکوں میں بھی اسی اصول کی پیروی کی جاتی ہے۔ چین اس کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں کی قیادت تین نسلوں سے معاشی پالیسز پرسختی سے گام زَن ہے اور اس تسلسل ہی کے نتیجے میں چین اب دوسری عالمی اقتصادی قوّت بن چکا ہے۔ 

البتہ روس میں اسے لیڈرشپ کے تسلسل سے بھی مشروط کردیا گیا ہے۔ وہاں صدر پیوٹن تقریبًا20 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اسی طرح، جرمنی میں جمہوریت کے باوجود چانسلر، مرکل سولہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ تُرکی میں ایردوان نے اسی تسلسل پر عوام سے نظام میں تبدیلی کا مینڈیٹ لیا ہے۔ دراصل، ان قوموں کی تبدیلی کا پیمانہ ٹھوس معاشی ترقّی کا حصول ہے۔ پھر یہ کہ وہ ایسی خوش حالی کے قائل ہیں، جو عوام میں نظر بھی آئے۔ صدرٹرمپ یوں تو اپنے پیش رَو باراک اوباما کی پالیسز پر شدید تنقید کرتے ہیں، لیکن اگر اُن کی معاشی اور خارجہ پالیسز کا عمیق جائزہ لیا جائے، تو اُن کے اہداف میں بھی تسلسل اور مماثلت نظر آئے گی۔ یعنی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹی میں قومی امور پر ایک طرح کی مفاہمت ہے۔ بس، طریقۂ کار میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا کے تمام مخالفانہ واویلے کے باوجود، ڈیموکریٹس کی طرف سے صدر ٹرمپ کو ہٹانے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔ کوریا، جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں امریکی کھیل اوباما کے دَور ہی سے شروع ہوا تھا۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ، جزیرہ نُما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا، جاپان کو بالادست قوّت بنانا اور بھارت کو قریبی دوست بناکر بحرِ ہند میں طاقت وَر بنانا صدر اوباما کی پالیسی تھی۔ یہی سب کچھ اب ٹرمپ کے دَور میں بھی جاری ہے۔البتہ اس حوالے سے اُن کا اپنا جارحانہ انداز ہے۔

ٹرمپ، کم ملاقات میں امریکا اور شمالی کوریا کی اعلیٰ ترین قیادت کے درمیان براہِ راست انڈر اسٹینڈنگ کا پیدا ہونا، سب سے اہم بات تھی، کیوں کہ اتنے گمبھیر معاملات میں، جہاں نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال تک کی نوبت آجائے، فیصلے وہی کرسکتے ہیں، جنہیں اپنے عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہو۔ کوریا کا معاملہ’’ انڈو چائنا پالیسی‘‘ (جنوب مشرقی ایشیاء کے لیے ٹرمپ دَور کی نئی اصطلاح) کے لیے بہت اہم ہے، اسی لیے اس میں سارے علاقائی کھلاڑیوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ چین کو، جو امریکا کا حریف اور شمالی کوریا کا دنیا میں واحد حلیف سمجھا جاتا ہے، ایک ایک قدم کا پتا تھا۔ جاپان اور جنوبی کوریا سمیت علاقے کے دیگر مُمالک بھی ایک پیج پر تھے۔ 

اگر ایسا نہ ہوتا، تو پھر سنگاپور، جو بہ ظاہر ایک نیوٹرل مُلک ہے، اس ملاقات کی کیسے میزبانی کرتا۔ ٹرمپ،کم ملاقات میں اگر ایک طرف شمالی کوریا کو عالمی پزیرائی ملی اور اُسے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا، وہیں اُس نے واضح طور پر ایٹمی پروگرام بند کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی۔ صدر ٹرمپ نے اس پر عمل کا طریقۂ کار امریکی پالیسی سازوں پر چھوڑ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، شمالی اور جنوبی کوریا میں مفاہمت کے اقدامات اور نیوکلیئر پروگرام کے خاتمے کا عمل بہ یک وقت جاری ہے۔ 

امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر اُس وقت ساری دنیا کو حیران کر دیا، جب اُنہوں نے ایک بیان میں کہا کہ’’ وہ ایران کے صدر، حَسن روحانی سے کسی شرط کے بغیر ملنے پر تیار ہیں، کیوں کہ وہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ملاقات، جب وہ( روحانی) چاہیں، ہوسکتی ہے۔‘‘ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان جس قسم کے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، اس نے2017 ء کی ٹرمپ،کم بیانات کی جنگ کی یاد دِلادی تھی۔ صدر روحانی نے تہران میں سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ امریکا سمجھتا ہے کہ ایران کے ساتھ امن، ہر قسم کے امن کا ضامن ہے، جب کہ ایران کے ساتھ جنگ، ہرقسم کی جنگ کی ماں ہوگی۔‘‘ جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا’’ امریکا کو اب کبھی دوبارہ مت دھمکانا، ورنہ وہ نتائج بھگتنا پڑیں گے، جن کا سامنا تاریخ میں چند ہی مُمالک کو ہوا ہوگا۔‘‘ پہلے اور دوسرے بیان میں شدید تضاد ہے، اسی لیے ملاقات کے بیان کے فوراً بعد امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’ امریکی صدر اس لیے ملنا چاہتے ہیں کہ مسائل حل ہوسکیں۔‘‘ یقینًا یہ ایک بہت ہی مثبت پیش رَفت کہلائے گی۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے، جو اسی کش مکش کے نتیجے میں آگ اورخون کا دریا بنا ہوا ہے۔ 

بڑی طاقتیں یہاں کسی نہ کسی طور جنگ میں ملوّث ہیں اور اس جنگ کے اثرات پورے علاقے میں قیامت ڈھا رہے ہیں۔ پھر یہ کہ سعودی عرب ہو یا ایران، کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بہرحال، امریکا اور ایران کے بیانات اپنی جگہ، تاہم ٹرمپ، روحانی ملاقات اتنی آسان بھی نہیں۔ ایران اور امریکا کے درمیان 1979ء ( ایرانی انقلاب ) کے بعد سے سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی کبھی سربراہی سطح پر ملاقات ہوئی ہے۔ ہاں، جان کیری اور صدر روحانی کے درمیان اوباما دَور میں ایک اعتماد کا رشتہ بنا تھا، جو امریکا کے نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے پر بَھک سے اُڑ گیا۔ ان دونوں مُمالک کے درمیان اعتماد کے فقدان کی خلیج مزید گہری اور وسیع ہوچکی ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ جب تک امریکا ڈیل میں واپس نہیں آتا، وہ بات چیت نہیں کرسکے گا، لیکن اس کے لیے وہ یورپی یونین کے سفارتی چینل پر بھروسا کر رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یورپی رہنماؤں نے حالیہ دَورے کے دَوران صدر ٹرمپ کو نرم پوزیشن پر لانے کی بھرپور کوشش کی، جس کے نتیجے میں ملاقات کرنے سے متعلق بیان سامنے آیا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایران نے روس سے مل کر فوجی پیش قدمی کے بعد شام میں صدر بشارالاسد کا اپنے علاقے پر فوجی قبضہ بحال تو کروا دیا ہے، لیکن اس اقدام سے ایک خلا سا پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی شامی اپوزیشن، جسے مغربی طاقتیں اور عرب سپورٹ کر رہے تھے، بہ ظاہر تو شکست کھا گئی اور اسد کے علاقے سے نکل گئی، لیکن اس انخلا سے قبل ہی اسرائیل اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے آچکا ہے۔ اُس کے شام کی سرزمین پر متواتر حملے، جن کی قوّت اور وسعت میں روزبہ روز اضافہ ہو رہا ہے، اس بات کی غمّازی کر رہے ہیں کہ اب مشرقِ وسطیٰ کے میدان میں کون ایران کے سامنے کھڑا ہے۔ 

حکومتیں تبدیل ہوجائیں، پالیسز میں تسلسل رہنا چاہیے
صدر حسن روحانی

اسرائیل کو امریکا ہی نہیں، بعض عرب مُمالک بھی سپورٹ کر رہے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ عرب مُمالک اور تُرکی، روس، اَسد،ایران کی مشترکہ فوجی طاقت کے سامنے مجبور ہوگئے اور مقابلہ نہ کرسکے، کیوں کہ اوباما دَور میں امریکا نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسری وجہ اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ’’ وہ ایرانی فوج یا دخل اندازی کو شام میں برداشت نہیں کرے گا۔‘‘ عربوں کے لیے یہ ایک بہتر تبدیلی ہے۔ اُدھر اسرائیل کو روس بھی روکنے سے معذور ہے، کیوں کہ اُس کے تِل ابیب سے مضبوط روابط ہیں اور وہ اُنہیں ایران یا اَسد کی خاطر دائو پر لگانے کو تیار نہیں۔ پھر چِین سے بھی اسرائیل کے قریبی روابط ہیں۔ وہ بھی مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل ہی کو سب سے مستحکم قوّت سمجھتا ہے۔ اس طرح ایران اس علاقے میں آہستہ آہستہ تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ نیز، ایران کی اقتصادی صُورتِ حال بھی اِن دنوں بہت دبائو میں ہے۔ ایک ڈالر کے بدلے ایک لاکھ ایرانی ریال مل رہے ہیں۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود، ناقدین کے مطابق، امریکا، ایران مذاکرات کے امکان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن اصل مسئلہ نیوکلیئر ڈیل نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کا مقام تسلیم کیا جانا ہے، جس کے لیے ایرانی، انقلاب کے بعد سے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف امریکا، عرب اور مغربی طاقتوں کی خواہش ہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں اپنا کردار محدود کردے، لیکن اس میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ علاقائی طاقتوں یعنی عرب، ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی رابطہ نہیں۔ اُن کا فیصلہ روس، امریکا اور یورپ کر تے ہیں اور ان میں سے ہر طاقت اپنے مفادات کا تحفّظ چاہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خطّے میں طاقت کا توازن ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوگا۔

ٹرمپ، پیوٹن ملاقات دو بڑی ایٹمی قوّتوں کے درمیان پہلی باضابطہ اور تفصیلی ملاقات تھی۔ شاید دونوں رہنماؤں کا اصرار تھا کہ یہ بات چیت خالص سیاسی اور سفارتی انداز میں ہو، اسی لیے یہ وَن ٹو وَن ملاقات رہی، جس میں کسی بھی مددگار کو شامل نہیں کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس ملاقات میں کوئی کیرئیر ڈپلومیٹ موجود نہیں تھا، لیکن اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کی تیاری اس طرح نہ کی گئی ہو، جیسی کہ بڑی طاقتوں کی ایسی میٹنگز کے لیے کی جاتی ہے۔90 منٹ سے زاید جاری رہنے والی ٹرمپ، پیوٹن ملاقات میں موجودہ عالمی صُورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ پیوٹن کو گزشتہ ایک عشرے سے مردِ آہن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ خود امریکی میڈیا نے اُنھیں بااثر قیادت کے معاملے میں صدر اوباما سے زیادہ نمبر دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پیوٹن زیادہ مؤثر اور دبنگ رہے۔‘‘ تاہم اس مرتبہ اُن کا مقابلہ امریکا کے اُس لیڈر سے تھا، جو اب جمہوریت کے سب سے بڑے نمایندے ہونے کے باوجود، مردِ آہن کا رُوپ دھار چکے ہیں۔ نیز، وہ اپنی مَن مانی، سخت لہجے اور ڈکٹیشن دینے کے حوالے سے بھی شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ امریکا اور روس کے رہنماؤں نے ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف، مشرقِ وسطیٰ، شام، یمن، عراق، شمالی کوریا کے معاملات پر بے تکلّفی سے بات چیت کی، لیکن اس ملاقات میں وہ پس منظر حاوی رہا، جس میں امریکی میڈیا، پیوٹن حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ اُس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی اور اُس کا فائدہ ٹرمپ کو پہنچا۔ 

اسی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے سائیبر وار تھی، جس میں روس کے ہیکرز اور کمپیوٹر ماہرین اپنی حکومت کی ایما پر منظّم طریقے سے بہت سی دستاویز منظرِ عام پر لائے، جو امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہوئیں۔ صدر ٹرمپ نے ملاقات کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے روسی ہم منصب سے اس پر سوالات کیے ہیں۔ صدر پیوٹن نے ان الزامات کو ملاقات میں مسترد کیا اور اپنے مؤقف کو پریس میں بھی دُہرایا، جس پر امریکی صدر نے کہا کہ صدر پیوٹن کے جواب سے مطمئن نہ ہونے کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہیں۔ امریکی میڈیا کی خواہش تھی کہ صدر ٹرمپ، پیوٹن کے ساتھ جارحانہ رویّہ اختیار کریں، لیکن ایسا نہ ہوا اور اسی لیے اس ملاقات پر بہت تنقید کی گئی۔ میڈیا نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکی صدر نے سمجھوتے والا انداز اختیار کیا، جو واحد عالمی سُپر پاور کے لیڈر کی حیثیت سے شرم ناک تھا۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا اب اس طرح کے تبصرے کرتا ہے، حالاں کہ اوباما دَور میں امریکی صدر نے روس کو عالمی معاملات میں آگے جانے کا موقع دیا، تو میڈیا نے اُسے مفاہمت اور عالمی امن کے لیے بڑی نوید قرار دیا تھا۔ 

حکومتیں تبدیل ہوجائیں، پالیسز میں تسلسل رہنا چاہیے
شہزادہ محمد بن سلمان

شام میں عین اُس وقت ڈیل کرکے اوباما انتظامیہ پیچھے ہٹ گئی، جب بشارالاسد کیمیائی ہتھیاروں کے الزام میں بُری طرح دبائو میں آچکے تھے اور اُن کا اقتدار خطرے میں تھا۔ یقیناً روس اپنے حلیف کو بچانے میں کام یاب رہا۔ یوکرین اور کریمیا کے فوجی قبضے پر بھی امریکا کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔ نیز، مشرقِ وسطیٰ کا میدان روس کے لیے وا کیا گیا، جہاں سے وہ تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ یورپ ہی میں نہیں، بلکہ تُرکی کے معاملے میں بھی فوجی بغاوت کے بعد غلط پالیسی اپنائی گئی اور روس کو تُرکی سے روابط قائم کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ تُرکی نیٹو کا جنوبی دروازہ سمجھا جاتا ہے اور آج، امریکا اور یورپ سے دُور ہو رہا ہے۔ بہرحال، ٹرمپ اور پیوٹن اپنی بات چیت پر خاصے مطمئن دِکھائی دیے اور ایک دوسرے کو اپنے مُلکوں کا دَورہ کرنے کی بھی دعوت دی۔ اگر یہ مفاہمت نہیں، تو سفارتی سطح پر عالمی لیڈرشپ کی انڈر اسٹینڈنگ کی مثال ضرور ہے۔

بلاشبہ، روس ایک بڑی طاقت تو ہے، لیکن اقتصادی طور پر کم زَور ہے، اسی لیے وہ اب سُپر پاور نہیں رہا۔ اب چِین اس سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ درحقیقت ،پیوٹن نے امریکی صدر سے ملاقات کرکے اپنے مُلک کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ اس پر عاید اقتصادی پابندیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی جارہی ہیں۔ اُدھر، صدر ٹرمپ نے بھی اس وَن ٹو وَن ملاقات سے یورپین قیادت کو ایک خاص پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ اس ملاقات سے قبل وہ نیٹو اجلاس میں شرکت کرچکے تھے اور اُنھوں نے رُکن مُمالک پر اپنا مالیاتی حصّہ نہ دینے پر سخت تنقید بھی کی۔ نیز، امریکا، یورپ پر درآمدی ٹیکس بھی لگا چکا ہے۔ ماضی میں یورپی یونین کے بہت سے رہنماؤں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اُنھیں جب اپنی کوئی بات امریکا سے منوانی ہوتی، وہ روس کا کارڈ استعمال کرنے لگتے۔ اس حوالے سے روسی زبان بولنے والی، جرمن چانسلر، مرکل کی سیاست کو تو کمال حاصل رہا۔ وہ مغرب اور روس کے درمیان ایک پُل سمجھی جاتی رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یورپی یونین کے اِس دبائو کو مکمل طور پر ختم کردیا اور موسمیاتی تبدیلیوں، ایرانی نیوکلیئر ڈیل اور ٹیکس لگانے کے معاملے میں اُن کی ایک نہ سُنی۔ اِسی لیے یورپی میڈیا، عالمی امور کے ماہرین اور سیاسی رہنما اُن پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ ان معاملات میں جرمنی کی چانسلر کو خاص طور پر ہزیمت اٹھانی پڑی اور شاید اِسی لیے اُن کا لہجہ ٹرمپ کے معاملے میں خاصا تلخ بھی ہے۔ پھر ٹرمپ نے روس اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پالیسی غالباً یورپ کی مرضی کے بغیر ہی مرتّب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ امریکا ایک طرف جا رہا ہے اور یورپ دوسری سمت۔ 

دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس مضبوط مغربی اتحاد میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کی دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ یہ ایک طرح سے اُن مُلکوں کے لیے پیغام بھی ہے، جو اب تک امریکا اور ان کے تنازعات کے درمیان یورپ پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ اب اُنہیں براہِ راست امریکا ہی سے بات کرنی ہوگی۔ یہی بات پیوٹن، ٹرمپ وَن ٹو وَن ملاقات میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ نیز، ایران کے معاملے میں تو یہ اندازِ فکر مزید کُھل رہا ہے۔ عالمی سطح پر جس قسم کی تیز رفتار تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، اُن کے اثرات چھوٹے مُلکوں پر بھی تیزی سے پڑیں گے۔ اُنہیں اس کے لیے کمر کَس لینی چاہیے اور پاکستان بھی اُن مُمالک میں شامل ہے۔

تازہ ترین