• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سخت کوش اور عملیت پسند سربراہ عمران خان نے پارٹی کا پارلیمانی لیڈر اور اس حیثیت سے ملک کا وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد اپنی فکر انگیز تقریر میں جن بلندارادوں کا اظہار کیا ہے ان پر حقیقی معنوں میں پوری طرح عملدرآمد ہو جائے تو بلاشبہ ملک میں ویسی تبدیلی آکر رہے گی جس کا اظہار وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی جلسوں میں کرتے رہے ہیں۔ یہ کوئی عام تقریر نہیں تھی بلکہ ایک بلیغ خطبہ تھا جس میں انہوں نے ماضی کی روایات سے ہٹ کر ملک کے تابناک مستقبل کے لئے ایسا لائحہ عمل پیش کیا جو عوام کی امنگوں اور توقعات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی تقریر کے سارے نکات گہری توجہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک منتخب ارکان پارلیمنٹ کو خبردار کیا کہ تحریک انصاف کا اقتدار چیلنجوں سے بھرپور ہے۔ عوام ہم سے روایتی طرز سیاست اور انداز حکومت کی توقع نہیں رکھتے۔ اگر ایسا طرز اپنایا تو عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنیں گے۔ لوگ آپ کا طرز سیاست اور کردار دیکھیں گے اور اس کے مطابق اپنا ردعمل دیں گے اس لئے آپ کو عوام کی امیدوں پر پورا اترنا ہو گا۔ عوام نے آپ کو پارلیمنٹ میں اس لئے بھیجا ہے کہ نچلے طبقے کو اوپر لائیں۔ میں خود مثال بنوں گا اور آپ سب کو مثال بننے کی تلقین کروں گا پروٹوکول لوں گا نہ شاہ خرچیاں کروں گا عوام کا پیسہ بچانا ہے تاکہ ان کی فلاح پر خرچ کیا جا سکے۔ فیصلے میرٹ اور قوم کے مفاد کے لئے کروں گا۔ میرٹ سے ہٹ کر کام کروں گا نہ کرنے دوں گا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے 6ماہ کو فیصلہ کن قرار دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ میں برطانیہ کی طرز پر بطور وزیراعظم ہر ہفتے ایک گھنٹہ تک ارکان کے سوالوں کے خود جواب دیا کروں گا۔ وزرا کو بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو اخلاقی اور روحانی طور پر انتہائی کمزور اپوزیشن کا سامنا ہے۔ بطور سیاستدان عمران خان نیا پاکستان بنانے کے لئے اپنا جو ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں بطور وزیراعظم اب اس پر عملدرآمد کا وقت آگیا ہے۔ عام انتخابات میں ان کی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اورپھر دوسری چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر عددی اکثریت حاصل کر لی تاہم پارلیمنٹ میں انہیں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں کہ اپنے ایجنڈے پر بلا روک ٹوک عمل کرتے رہیں۔ ماضی میں ملک پر حکومت کرنے والی دو بڑی پارٹیاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک بڑی قوت کے طور پراپوزیشن میں موجود ہیں انہیں اخلاقیات اور روحانیت کے پیمانے سے ناپ کر نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی کہ اس پیمانے پر کون پورا اترتا ہے اور کون نہیں، یہ فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں جتنا نظر ا ٓتا ہے۔ ملک و قوم کے مفاد میں بڑی تبدیلی اور بڑے فیصلے کرتے وقت انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ پارلیمانی اکثریت اس ملک میں کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی پھر بھی وہ اہم قومی معاملات میں اپوزیشن سے مشاورت کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے نظریاتی لوگ شروع میں چٹان کی طرح ان کے ساتھ کھڑے تھے پھر اکثر ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ تحریک انصاف اس وقت بظاہر متحد و منظم ہے مگر گروہ بندی کے اشارے بھی مل رہےہیں۔ عمران خان کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے اپنی صفوں کو بھی درست رکھنا ہو گا۔ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے اپنا جارحانہ لہجہ تبدیل کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سادگی اور کسی حد تک انکساری بھی اختیار کر لی ہے۔ گویا ا نہوں نے تبدیلی اپنی ذات سے شروع کی ہے جو ایک مثبت عمل ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح مہاتیر محمد ملائشیا اور رجب طیب اردوان ترکی میں تبدیلی لائے عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے میں کامیاب نہ ہوں۔ان کے لئے سب سےبڑا چیلنج کرپشن کا خاتمہ ہی نہیں، گڈ گورننس، غیر ملکی قرضوں سے نجات، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ اور کئی دوسرےداخلی و خارجی مسا ئل پر قابو پانا بھی ہے جس کے لئے انہیں ایک ا چھی ٹیم کی ضرورت ہو گی۔ اس کا انتخاب ان کے تدبر کا ا متحان ہوگا۔

تازہ ترین