• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبدیلی آگئی ہے اور الیکشن کے ابتدائی نتائج آتے ہی آگئی۔ سب سے بڑی تبدیلی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ہاں واقع ہوئی۔ گزشتہ پانچ سال پی ٹی آئی،دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتی رہی تو مسلم لیگ(ن) اصرار کرتی رہی کہ انتخابات صاف اور شفاف منعقد ہوئے، اب مسلم لیگ(ن) دھاندلی کا شور مچاتی رہے گی تو پی ٹی آئی ثابت کرتی رہے گی کہ انتخابات صاف بھی تھے اور شفاف بھی۔

گزشتہ پانچ سال پی ٹی آئی دھرنوں اور فساد کے لئے بہانے ڈھونڈتی رہی اور مسلم لیگ(ن) پارلیمنٹ کے اندر مسائل حل کرنے پر زور دیتی رہی جبکہ اب مسلم لیگ(ن) پارلیمنٹ کو جعلی قرار د ے کراس سے باہر اودھم مچانے کی کوشش کرتی رہے گی۔ گزشتہ پانچ سال پی ٹی آئی کے لوگ گالم گلوچ سے کام لے کر ماحول خراب کرتے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت صبر سے کام لیتی رہی جبکہ اب پی ٹی آئی والے نصیحتیں کرتے رہیں گے اورمسلم لیگی وہی گالیاں یاد کریں گے جو پی ٹی آئی نے ایجاد کی ہیں۔ گزشتہ پانچ سال عمران خان پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے رہے جبکہ مولانا فضل الرحمان تہتر کے آئین کے تناظر میں پارلیمنٹ کے عزت و احترام کا درس دیتے رہے، اب عمران خان صاحب، مولانا فضل الرحمان بن جائیں گے جبکہ مولانا فضل الرحمان قرآن وسنت کی روشنی میں پارلیمنٹ کو بوگس قرار دے کر اس پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ گزشتہ پانچ سال محمود اچکزئی صاحب عمران خان کے دھرنوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ میں آنے کا درس دیتے رہے جبکہ اب وہ دھرنے دیں گے اور عمران خان صاحب انہیں آئین اور پارلیمنٹ کے احترام کا درس دیتے نظر آئیںگے۔ گزشتہ پانچ سال اسفندیارولی خان صاحب سسٹم گرانے کے لئے سرگرم عمل عمران خان کے مقابلے میں سسٹم کے ساتھ کھڑے تھے لیکن اب وہ نئی اسمبلیوں سے جان چھڑانے والی قوتوں کی اگلی صف میں ہوں گے ۔گزشتہ پانچ سال میں عہدوں کے حصول کے لئے مسلم لیگ(ن) کے پارٹی رہنما اور کارندے اسلام آباد کے فائیواسٹار ہوٹلوں میں نظر آتے تھے اور اب پی ٹی آئی والے وہاں قابض ہوں گے۔

عہدوں کے جو سودے پہلے کوہسار مارکیٹ اور جناح سپر میں ہوا کرتے تھے، اب ان کے ساتھ ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بھی ہونے لگیں گے۔ گزشتہ پانچ سال میاں نوازشریف تک پہنچنے کے لئے مسلم لیگ(ن) کے ایم این ایز فواد حسن فواد کی خوشامدیں کرتے نظر آتے تھے اور اب پی ٹی آئی کے ایم این ایز عمران خان تک پہنچنے کے لئے عون چوہدری، فواد چوہدری، نعیم الحق اور زلفی بخاری کی قدم بوسی کرتے رہیں گے۔ پچھلے پانچ سالوں میں اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے پاس جانے کے دلائل دیا کرتے جبکہ پی ٹی آئی والے مذاق اڑاتے رہتے تھے اب اسد عمر وہی تاویلیں پیش کرتے جبکہ اپوزیشن والے مذاق اڑاتے رہیں گے۔ پچھلے پانچ سال مسلم لیگ(ن) والے میڈیا کے رویے کا رونا روتے رہے تو اب پی ٹی آئی یہ ذمہ داری سنبھال لے گی۔ پچھلے پانچ سال مسلم لیگی یہ عذر پیش کرتے رہے کہ عدلیہ ان کی حکومت کو کام کرنے نہیں دے رہی اور اب یہ فریادیں پی ٹی آئی کی طرف سے سننے کو ملیں گی۔ پچھلے پانچ سال مسلم لیگی، طاقتور اداروں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا رونا روتے اور پی ٹی آئی والے مذاق اڑاتے رہے جبکہ اب پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) بن جائے گی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اب عمران خان، نوازشریف بن جائیں گے، فواد چوہدری ،مریم اورنگزیب بن جائیں گے، اسد عمر، اسحاق ڈار بن جائیں گے۔ شیریںمزاری، خرم دستگیر بن جائیں گی۔ پرویز خٹک، احسن اقبال بن جائیں گے۔ علی محمد خان ،طلال چوہدری بن جائیں گے اور مراد سعید عابد شیر بن جائیں گے۔

تبدیلی نہیں آئی توعوام اور پاکستان کی حالت میں نہیں آئی۔ پاکستان کے مسائل جوں کے توں رہیں گے اور عوام کی بدحالی جوں کی توں رہے گی۔ پاکستان کو حسب سابق معاشی بحران کا سامنا رہے گا۔ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات حسب سابق کشیدہ رہیں گے۔ سول ملٹری تعلقات جیسے تھے، ویسے ہی رہیں گے۔ عدالتوں میں بدستور انصاف فروخت ہوتا رہے گا۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ پاکستان کا عالمی امیج جیسا تھا، ویسا رہے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان حوالوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کل جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں تھیں، اسی طرح آج تحریک انصاف، انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں آگئی ہے۔ یہ جہانگیر ترین، یہ شاہ محمود قریشی اور یہ خسروبختیار وغیرہ کل دوسری پارٹیوں کے جھنڈے تلے حکمران تھے اور اب پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے حکمران ہوں گے۔ جتنا اختیار وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس تھا، اتنا اختیار وزیراعظم عمران خان کے پاس بھی ہوگا۔ جتنی وزیرداخلہ احسن اقبال کی چلتی تھی، اتنی ہی عمران خان کی کابینہ کے وزیرداخلہ کی بھی چلے گی۔ خارجہ پالیسی میں جو اختیار میاں نوازشریف کے وزیر خارجہ کو حاصل تھا، اتنا ہی اختیار عمران خان کے وزیرخارجہ کو بھی حاصل ہوگابلکہ غالب امکان یہ ہے کہ وزیرخارجہ بھی وہی ہوگا جو میاں نوازشریف کی ٹیم کا حصہ تھا۔

تبدیلی نہیں آئی تو ہم بدقسمتوں کی حالت میں نہیں آئی۔ ہم جو کام میاں نوازشریف کی حکومت میں کرتے رہے، وہی اب بھی کریں گے۔ گزشتہ پانچ سال میاں نوازشریف اور عمران خان کی یکساں خبر لے کر ان دونوں کو ناراض کرتے رہے اور اب بھی یہی ہوگا۔ کل جب عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کرکے سسٹم کو ڈی ریل کرنا چاہ رہے تھے تو ہم سسٹم کے ساتھ کھڑے رہے اور آج بھی جب کوئی غیرجمہوری اور غیرآئینی طریقہ اختیار کرے گا تو ہم آئین اور سسٹم کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ کل جب کوئی دوسرا ادارہ اپنے دائرے سے نکل کر مقننہ اور انتظامیہ کے دائرے میں مداخلت کرتا رہا تو ہمیں تکلیف ہوتی اور آج بھی اگر کوئی ادارہ اپنا دائرے سے نکل کر دوسرے کے دائرے میں مداخلت کرے گا تو ہمیں تکلیف ہوگی۔ کل جب عمران خان، جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیرجمہوری قوتوں کےکارندے بن کر سسٹم کو ڈی ریل کررہے تھے تو ہم مزاحمت کررہے تھے اور آج اگر شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمان ان کے مقابلے میں غیرجمہوری قوتوں کے کارندے بن کر عمران خان کو آئوٹ کرنے کی کوشش کریںگے توہم حسب استطاعت جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور تبدیلی بھی آنے والی ہے۔ وہ یہ کہ کچھ عرصہ بعد وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے ساتھ ہوا۔ اگر ان کے مذہبی عقائد سے متعلق بھی سوال اٹھائے گئے یا ان کوبھی سیکورٹی رسک بنانے کی کوشش کی گئی تو ہم ان کو سچا مسلمان اور محب وطن قرار دلواتے رہیں گے جب تک ان کی غداری یا گمراہی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل جائے۔

وزیراعظم پاکستان کی پہچان بن جاتے ہیں اور جس طرح ہم کل کے کسی وزیراعظم کی تضحیک پر خوش نہیں تھے، اسی طرح عمران خان کی تضحیک پر بھی ہمیں دکھ ہوگا، ہاں البتہ جس طرح یوسف رضاگیلانی کو معاف نہیں کیا اور جس طرح میاں نوازشریف کی خراب طرز حکمرانی پر ان کی خبر لیتے رہے، اسی طرح موجودہ حکمرانوں کی بھی حسب استطاعت خبر دیتے اور لیتے رہیں گے۔عمران خان اور حکومت پر سخت سے سخت تنقید کریں گے لیکن وہ بازاری زبان کبھی استعمال نہیں کریں گے جو عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی نے عام کی ہے۔ اسی طرح میڈیا یا سوشل میڈیا پر وہ غلط کام کبھی نہیں کریں گے جو عمران خان کے پیروکار، اپنے مخالفین کے خلاف کرتے رہے یا کررہے ہیں۔ پاکستان جیسا تھا، ویسا رہے گا اور ہم بھی جیسے تھے، ویسے رہیں گے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین