• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر انتخابات اختتام کو پہنچے اور نتائج تقریباً وہی آئے جن کی سب توقع کررہے تھے لیکن انتخابی مہم کے دوران جس بات سے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو دکھ پہنچا وہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی اور غیر انسانی سلوک تھا۔ حالیہ الیکشن میں یہ دیکھ کر ہر ذی شعور پاکستانی صدمے سے دوچار ہوا کہ انتخابی مہم کے دوران جانوروں کو بھی سیاسی انتقام اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی شروعات پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی جانب سے مخالف جماعت کے لوگوں کو ’’گدھے‘‘ کے القاب سے نوازنے سے ہوئی جس کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے کراچی میں ایک گدھے پر ’’نواز‘‘ لکھ کر اُسے انتہائی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گدھے کےجسم کی ہڈیاں اور ٹانگیں ٹوٹ گئیں لیکن اس پر بھی جب انہیں تسکین نہیں ہوئی تو گدھے کو گاڑی سے کچل دیا گیا۔ بعد ازاں جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی عائشہ چندریگر فائونڈیشن (ACF) کے رضاکار اطلاع ملنے پر جب جائے وقوع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بے زبان جانور کے جسم سے خون جاری تھا اور وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ رضاکاروں کی گدھے کی جان بچانے کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے روز مرگیا۔ اُس وقت تک سوشل میڈیا پر گدھے کے وحشیانہ قتل کی ویڈیو وائرل ہوچکی تھی جسے ’’ہیرو‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ’’ہیرو‘‘ کی موت کے کچھ دنوں بعد ایک اور گدھا شدید زخمی حالت میں عائشہ فائونڈیشن لایا گیا جس کی کھوپڑی پر تیز دھار آلے کے گہرے نشانات تھے اور اس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ بات صرف گدھے پر تشدد تک محدود نہیں رہی بلکہ الیکشن سے کچھ دن قبل پشاور میں ایک اور واقعہ میں قومی وطن پارٹی کے کارکنوں نے ایک کتے کو تحریک انصاف کے جھنڈے میں لپیٹ کر گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوام کا سخت ترین ردعمل سامنے آیا اور عوام کے شدید دبائو پر واقعہ میں ملوث دو ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ میں نے جب بے زبان جانوروں پر تشدد کی یہ ویڈیوز دیکھیں تو شدید صدمے سے دوچار ہوا اور واقعہ کی سفاکی کئی روز تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ آخر ان بے زبان جانوروں کا کیا قصور تھا جنہیں اپنی مخالفانہ تسکین کیلئے سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔


سیاست میں عدم برداشت اور جانوروں پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ قیام پاکستان سے کچھ عرصے قبل تحریک آزادی مہم کے دوران بھی اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں شرکاء کو محظوظ کرنے کیلئے ایک کتے کو مہاتما گاندھی کا لباس پہنایا گیا تھا۔ قائداعظم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے اس کا برا منایا اور آئندہ سختی سے ایسی حرکت سے باز رہنے کی ہدایت کی۔ قیام پاکستان کے بعد ملکی تاریخ میں جانوروں کو الیکشن میں ملوث کرنے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 1965ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی بہن فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے مقابلے میں دھاندلی کرکے ہرایا گیا۔ بعد ازاں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اس جیت کا جشن اور قائداعظم کی بہن کو تضحیک کا نشانہ بنانے کیلئے ایک کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کر شہر بھر میں گھمایا۔ بانی پاکستان کی بہن کی اس طرح کی تذلیل پر عوام کے جذبات شدید مجروح ہوئے جبکہ اس اقدام سے فاطمہ جناح بھی بہت دلبرداشتہ ہوئیں اور دو سال بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔


مذہب اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کو اجرِ ثواب قرار دیا ہے۔ جانوروں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ایک اونٹ رونے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اُس اونٹ کے پاس گئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس موقع پر نبی کریمﷺ نے اونٹ کے مالک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’جانوروں کے ساتھ سلوک کے معاملے میں اللہ سے ڈرو جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے، اِس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اِسے مارتے اور بھوکا رکھتے ہو۔‘‘ یہ سن کر انصاری نوجوان اپنے کئے پر شرمندہ ہوا اور نبی کریمﷺ سے معافی طلب کرتے ہوئے آئندہ جانوروں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنے کا وعدہ کیا۔


موجودہ الیکشن میں جانوروں پر تشدد کی جس طرح ویڈیوز منظرعام پر آئی ہیں، اس سے نہ صرف غیر مسلموں بلکہ مغربی ممالک میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور وہاں جانوروں پر تشدد کرنا قابل سزا جرم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی جائے اور جانوروں پر تشدد کرنا غیر انسانی عمل اور قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔گوکہ الیکشن کمیشن نے پارٹی امیدواروں کیلئے قواعد و ضوابط وضع کر رکھے ہیں مگر الیکشن کمیشن پارٹی کارکنوں کی جانب سے جانوروں پر تشدد کے حوالے سے مکمل خاموش ہے۔ زیادہ اچھا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی ضابطہ اخلاق میں انتخابی مہم میں جانوروں کی نمائش اور اُن پر تشدد کے حوالے سے بھی قوانین وضع کرے اور خلاف ورزی پر پارٹی کے خلاف کارروائی کی جائے۔


21 ویں صدی میں انسان نے ترقی کی معراج کو پالیا ہے مگر وہ اس ترقی کے باوجود انسانیت سے اتنا گرگیا ہے کہ حیوانیت پر اترآیا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ کتے کو گولی مارنے والے ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور امید ہے کہ انہیں قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے گی مگر گدھے پر تشدد کرنے اور اس کی موت کا سبب بننے والے پی ٹی آئی کارکنوں کی نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس گھنائونے جرم میں ملوث مجرمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی سیاسی انتقام کے طور پر جانوروں کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ سلوک نہ کرسکے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین