• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018کے عام قومی انتخابات میں جو ہو رہا ہے یا جو نہیں ہو رہا، ان سب کے درمیان ایک معجزہ نما وقوعہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شخصیت سے تعلق رکھتا ہے، یہ کہ ان انتخابات میں بلاول بھٹو کے بارے میں پاکستانی عوام کی رائے میں برق رفتاری سے تبدیلی آئی، انہوں نے بلاول کو مستقبل کے بڑے قومی رہنما کے طور پر ذہناً قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔

2018کے انتخابات میں بلاول بھٹو کا جلسوں سے خطاب، خصوصاً میڈیا سے بات چیت اور انتخابی کش مکش کے حوالے سے سوالات کے جواب پر اعتماد اور ابلاغ نے بلاول کے سیاسی ارتقاء کا ثبوت فراہم کر دیا۔ 2018میں بلاول بھٹو زرداری نے خود کو ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے سیاسی وارث ہونے کا حقدار ثابت کر دیا۔ انہیں آصف علی زرداری نے مسلسل اپنی دعائوں اور جدوجہد سے پاکستان کے سیاسی نشیب و فراز سمجھائے، بتائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان بلاول بھٹو کے اندر ایک ’’جہاں دیدہ‘‘ بلکہ سردو گرم چشیدہ سیاستدان نے بسیرا کر لیا ہے، انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلا مگر اب لوگ صرف ایک بات کہتے ہیں ’’پارلیمنٹ میں بلاول کی تقاریر اور کارکردگی سے لوگ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔‘‘

بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں بڑی خوبصورتی اور تحمل کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نوجوان سیاسی کیڈر کو مختلف طریقوں سے آگے بڑھایا، 2018کے عام انتخابات کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کی جو ’’قومی کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی اس میں پنجاب سے جواں سال بیرسٹر عامر حسن کا ہی انتخاب کیا جبکہ پنجاب کی سینئر قیادت کا احترام بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

بلاول کی بنیادی فکر کیا ہے؟ اس کے لئے ہمیں چار برس قبل ملکی کرکٹ اسٹیڈیم (سندھ) میں ان کے افکار کی صدائے بازگشت کو دھرانا ہو گا۔ وہاں 2014 میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک کلچرل فیسٹیول منعقد ہوا تھا۔ اس میلے کی اختتامی تقریب سے بلاول بھٹو کا خطاب ان کی بنیادی فکر سامنے لاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے وارث قوم پرست نواسے نے پاکستانیوں کو وطن عزیز کی سب سے بڑی سچائی سے خبردار کیا تھا، وہ سچائی کیا تھی؟

’’وہ مائنڈ سیٹ جو پشتونوں کی قبائلی عصبیت اور پنجابیوں کی مذہبی جذباتیت سے تشکیل پایا۔ وہ مائنڈ سیٹ جس نے پاکستان کے گلی کوچوں میں عدم تحمل و برداشت کے باعث حق بات کہنے کی گنجائش ختم کر دی ہے، وہ ذہنی تشکیل جس نے اقلیتوں کی حد درجہ سختی کے ساتھ نفی کی، وہ فکری رجحان جو پاکستانی ریاست اور پاکستانی معاشرے کو زندگی کی ویرانیوں اور خونچکان وادیوں میں ہانکنا چاہتا ہے، وہ مائنڈ سیٹ جس کا پورا حیاتیاتی نقشہ ہم پاکستانیوں کو چھو کے بھی نہیں گزرا، وہ اندازِ فکر جو علماء و مشائخ اور ’’مولوی صاحبان‘‘ کو حکمرانی کے معاملات میں قیادت کے منصب پر دکھانا اور فائز کروانا چاہتا ہے، وہ ذہنی ساخت جس نے پاکستانی ریاست کے مقابلے میں مسلح بغاوت کا ایک پورا عہد قائم کر دیا ہے، وہ مائنڈ سیٹ جس کی سوچوں کے بنیادی ڈھانچے پر پاکستان کے اندر موجود بعض مذہبی جماعتیں اور عناصر تقریباً کلی حد تک اتفاق کرتے ہیں، وہ مائنڈ سیٹ جس نے افواج پاکستان کے شہدا کی توہین کی، اس مائنڈ سیٹ کی حامی جماعتوں کے ترجمانوں نے اس توہین کی نمائندگی میں بے خوفی اور لاپروائی کے انداز سے شہداء کے خون کو پانی سے بھی سستا کر دیا، وہ مائنڈ سیٹ جو بالآخر پاکستانی ریاست اور پاکستانی معاشرے کے مقابلے میں اندرونی اور بیرونی دائروں میں بے پناہ اسلحے، افرادی قوت اور پیسے سے سرفراز ہو چکا ہے، وہ مائنڈ سیٹ اب طاقت کے زور پر ہمارے ملک، ہمارے طرز زندگی اور ہماری ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اس مائنڈ سیٹ کی حامی فکری قوتیں اور چند دوسرے گروہ ہماری ریاست اور ہمارے خلاف ان کے ہمرکاب ہیں، وہ مائنڈ سیٹ جس کی مذہبی اجارہ داریوں نے ان کے معیار زندگی کے تمام معمولات میں امراء و روساء کو بھی حیرت زدہ کر دیا، بلاول بھٹو زرداری نے اس مائنڈ سیٹ کا نقشہ کھینچ دیا، یہی تاریخ کی گواہی ہے، آنے والے کل میں جو صف آرائی ہونے جا رہی ہے بلاول شاید سچائی کے سب سے بڑے علمبردار تسلیم کئے جائیں۔ مکلی اسٹیڈیم ٹھٹھہ سے تاریخ کی اس گواہی کو ریکارڈ پر لاتے ہیں جس کا ایک ایک لفظ ہمارے ماضی کے ایوان سے بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ’’ڈرو اس وقت سے جب پوری قوم تمہارے خلاف اکٹھی ہو کر دمادم مست قلندر کا نعرہ بلند کر دے گی اور تمہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا، تم لاشوں کے ڈھیر لگا کر جنت کے دروازے کھولنا چاہتے ہو، ایسا ممکن نہیں، اگر تم سمجھتے ہو دہشت گردی کر کے مجھے بھی دوسروں کی طرح خاموش کرا لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے، تمہیں ہر قدم پر میری للکار کا سامنا کرنا پڑے گا میں تمہیں عبرت کا ایسا نشان بنا دوں گا تمہارے جنازے کے لئے ایک کندھا بھی نہیں ملے گا، جن کا مقصد عوام کے خون پر اپنے جنگلی قوانین نافذ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی، ہمارے معتدل مذہب کو انتہاء پسندی کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمارا ملک، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت اور ہماری میراث انتہائی خطرے میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں، تعلیمی اداروں، ہمارے علماء اور کچھ مدارس نے ہم سے جھوٹ بولا۔ سب ہمیں جھکانا، توڑنا اور دبانا چاہتے تھے، لیکن ناکام ہونے پر ہم پر حملہ کر دیا۔ لفظوں کی گولیاں برسانے والوں نے ہم پر بموں کی برسات کر دی۔ یہ دہشت گرد زمانے بھر کی وحشت کو ہماری تہذیب بنا کر ہمیں اپنے جیسا جنگلی نہیں بنا سکتے۔ ہمیں جھوٹی تاریخ پڑھانے والو، یہ مت بھولو کہ قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں کیا گیا۔ شریعت کی پابندی کرنی ہے تو میثاق مدینہ کی پابندی کرو۔ ہم پر اپنے قوانین نافذ کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ان کے قوانین نافذ ہو جائیں تو وہ ہمارے میلے، فیسٹیول سمیت ہمارے مذہبی ورثے کو ہم سے چھین لیں اگر دہشت گردوں کا قانون نافذ ہو گیا تو ہمارے، ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی ملالہ جیسا سلوک ہو گا جبکہ ہمارے بیٹے بھی اعتزاز کی طرح موت کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، صرف یہی نہیں بلکہ کراچی میں مزار قائد، لاہور میں مینار پاکستان اور لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو زیارت میں قائداعظمؒ کے گھر کے ساتھ کیا گیا۔‘‘ نظریاتی اور جسمانی طور رپ پاکستان پر حملہ آور جن طالبان گروہوں کا بلاول نے نقشہ کھینچا ہے وہی زمینی حقیقت ہے۔

چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی اور شخصی جائزے کو ہم دو جہتوں پر مشتمل کہہ سکتے ہیں۔ ان کا بطور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نوعمری کے صرف گزشتہ چار پانچ برسوں کا سفر کر کے 2018میں خود کو صف اول کے سیاستدانوں جیسے معیارخطابت اور سیاسی مکالمے کا اہل ثابت کر دینا، دوسرے پاکستان کی سوسائٹی، گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں جس نظریاتی تشدد کی وادی میں گر چکی ہے، اس کا مکمل ادراک۔

بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی و شخصی جائزے میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید دونوں کے سیاسی کیریئر کی جھلکیاں پوری آب و تاب سے نظر آتی ہیں، ہم بلاول کے کلام اور مقام کے مابین مستقبل کا ایک اور عظیم پاکستانی لیڈر ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین