• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھائی جان نئے پاکستان میں خوش آمدید، آج آپ کیسا محسوس کررہے ہیں نئے پاکستان میں؟ جی اچھا محسوس ہو رہا ہے! بھائی جان آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، جی بولئے! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ووٹ کی طاقت سے نیا پاکستان بن چکا ہے اور اب ہمیں اسے سنوارنے کے لئے آپ کی مدد کی بھی ضرورت ہے۔ آپ نے کس پارٹی کو ووٹ دیا یہ وقت اب گزر چکا۔ اب صرف متحد ہو کر نئے پاکستا ن کو دنیا کا پر امن اور ترقی یافتہ کرپشن فری ملک بنانا ہے۔ جی ضرور جناب!کیوں نہیں۔ آپ حکم کریں۔ جناب حکم نہیں صرف التجا ہے کہ اب آپ ڈرائیونگ کرتے سیٹ بیلٹ ضرور باندھ لیجئے سڑکوں پر صفائی کا خاص خیال رکھیں، گھر کا کچرا ، گندگی دوسروں کے دروازے کے سامنے مت پھینکئے۔ گلی، محلے ، پبلک مقامات پر پان کی پچکاری اور تھوکئے مت، دیوار کی طرف منہ کرکے جو آپ سر عام اپنی طبیعت کھڑے کھڑے ہلکی کرتے رہے ہیں پلیز اب ایسی حرکت مت کیجئے۔ آپ کی اس حرکت سے شہر میں بدبو پھیلتی ہے۔ ماضی میں فرمائی جانے والی یہ حرکت تو اب بالکل نہ فرمائیے۔

وال چاکنگ کے ذریعے قوم کا علاج اور رگوں میں اندھیرے اتارنے والے نام نہاد نیم حکیموں کی حوصلہ شکنی کرنے میں ہماری مدد فرمائیے۔ بھائی جان آپ سے یہ بھی التماس ہے کہ نئے پاکستان میں آپ کے اردگرد جو ننگ دھڑنگ بچے جھونپڑیوں، کوٹھڑیوں ، ورکشاپوں،سڑکوں، فٹ پاتھوں پر اپنے روشن مستقبل سے ناآشنا بھاگے دوڑے پھررہے ہیں ان کے والدین کو قائل کیجئے کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔ وہ اپنا اور پیارے پاکستان کا مستقبل روشن کرنے میں ہمارا ساتھ دیں اوراپنے بچوں کو سکول ضرور بھیجیں ۔ ہاں جناب! ایک اور ضروری کام ہے جو ہمیں نئے پاکستان میں کرنا ہے کہ کسی غریب، محتاج، بیمار کی مدد کے لئے حکومت سے توقع رکھنے سے پہلے اپنی حیثیت میں جو ممکن ہو کر گزریں، جناب عالی! نیا پاکستان تو ہم نے اپنے ووٹ کی طاقت سے بنا دیا ہے اب ہمیں اس کی تعمیر و ترقی میں آپ کے کردار اور اخلاص کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو حق سچ بولنے پر مائل کیجئے، خود بھی گمراہ ہونے سے بچئے، دوسروں کو بھی بچائیے، انتہا پسندی جیسے جذبات اب ہماری منزل نہیں، یہ ایک بے تکلف انصافی دوست کی الیکشن نتائج آنے کے بعدٹیلی فون کال تھی جو بظاہرطنزو مزاح کے پیرائے میں ہی سنی جاسکتی تھی مگر میرے اس انصافی دوست کا لہجہ بڑا پر عزم تھا جس نے مجھے حیرت اور خوشی کے دونوں جذبات سے آشنا کیا۔ میں نے اپنے انصافی دوست سے کہا کہ جناب نے تو اپنے جذبات کا بڑے اچھے انداز میں اظہار کردیا ، اگر اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کرتا چلوں، یہ جو لولی لنگڑی جمہوریت، کراچی کی کچرا کنڈی، بند سکولوں کے کمروں اور لاہور کے گندے نالے میں جگہ جگہ ’’بچے‘‘ دے رہی ہے اور آئے دن یہ ’’بچے جمہورے‘‘ پاکستان کے کونے کھدروں سے نکل کر بار بار ہمارا منہ چڑا رہے ہیں اور بڑے بڑے سیاسی کاریگر بھی اس جمہوری گھن چکر سے چکرا گئے ہیں اور ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسا ’’جمہوری جنم‘‘ ہے کہ ہر ایک حیران و پریشان ہے حتیٰ کے نئے پاکستان کے لیڈر ہمارے بڑے خان صاحب کی حالت بھی ایسی ہے کہ ناجائے رفتن نہ پائے ماندن، مرتا کیا نہ کرتا۔

جان کی امان پائوں تو عرض کروں اب یہ کرپشن نام کی جس بلا کو ختم کرنے کے نعرے پر کپتان کو چند تحفظات کے ساتھ کامیابی ملی ہے تو اس کرپشن کا خاتمہ کیسے کرو گے انصافیو؟ تو وہ بولا جناب سب سے پہلے تو اپنے گھر سے صفائی شروع کریں پھر کرپٹ نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے متحد ہو کر عملی اقدام کریں تو یقینا یہ کرپٹ نظام جڑ سے ہی ختم ہو جائے گا۔ انصافی دوست نے کہا یہ جو میں نے آپ سے کہا ہے آپ اس پر عمل کیجئے۔ یہ کوئی کپتان نہیں صرف آپ اور میں ہی کرسکتے ہیں، اکیلا کپتان کچھ نہیں، جب ہم اپنے اردگرد کا ماحول صاف ستھرا کرلیں گے تو پھر کرپشن جیسی گندگی کو صاف کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ میں نے کہا ٹھیک، تمہاری بات سے اتفاق، مگر میرا سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے جن لوٹوں کی شکل میں اپنے گرد’’کرپشن فری‘‘ حصار قائم کرلیا ہے وہ اسے کامیاب ہونے دیں گے؟ پھر اس میں نیب کی پیشیاں بھگتنے والے انصافی لیڈروں کی نئے پاکستان میں کہاں گنجائش ہوگی؟ انصافی دوست کا جواب سنیئے، جناب آپ دیکھیں گے کپتان ایسے کسی شخص کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دے گا۔ میں نے کہا اللہ کرے مگر جب کپتان انہیں اپنے قریب پھٹکنے نہیں دے گا تو پھر کپتان کہاں ہوگا؟ جواب ندارد ، خاموشی، پھر میں نے کہا تم نے کبھی تصویریں بولتی دیکھی ہیں یا چہرہ شناسی سے مستقبل کی تصویر کشی کی ہے؟ تو بولا نہیں جناب میں یہ صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر غور سے سنو اور دیکھو وہ ویڈیو جس میں اڑن کھٹولے (لودھراں ایکسپریس) پر پرستان سے ’’گلفام‘‘ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بنی گالا کو ’’کوہ قاف‘‘ بنانے کی کوشش کرنے والے جہانگیر ترین جو سپریم کورٹ سے تو تاحیات مستند شدہ نااہل ہو چکے مگر ابھی بھی اپنی اہلیت ثابت کرنے پر تلے نظر آرہے ہیں اور جب وہ میڈیا گفتگو کے دوران شاہ محمود قریشی اور یار محمد رند کے درمیان سینڈوچ بنے کھڑے تھے توانہیں منہ بنا کر پیچھے ہٹتے اور شاہ محمود قریشی کو مستقبل کے ارادوں، منصوبوں میں گم سم گہری سوچ میں مبتلا ’’ڈب کھڑبا‘‘ منہ بنائے کھڑے نہیں دیکھا اور کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب جہانگیر ترین نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لئے جام کمال کا نام لیا تو یار محمد رند کیسے وہاں سے کھسک کر چلتے بنے۔

بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں مکین سردار اختر مینگل کا اپنے جائز مطالبات کے حق میں ڈٹ جانا اور فواد چودھری کایہ کہنا کے ان کے تمام مطالبات جائز ہیں مگر سردار صاحب کا بنی گالا جانے سے انکار کیا نئے پاکستان کی حقیقی تصویر کشی نہیں کر رہا۔ یہی نوعیت ایم کیو ایم سے تعلقات کی ہے۔ ماضی کے دشمن اقتدار کی خاطر کیسے یک جان دو قالب ہوتے ہیںکوئی خان صاحب سے پوچھے۔ ایم کیو ایم کے نو نکات خان صاحب کے سر پر ہر وقت لٹکتی تلوار ثابت ہوں گے اور کہیں راستے میں ایم کیو ایم والے تمہارے خان کو صاف’’نو‘‘ ہی نہ کہہ دیں، میں نے انصافی دوست سے کہا آخر تمہارا خان کس کس کی پوری کرے گا، پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نہ بنایاتو نیا عذاب، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، علیم خان کا مستقبل کیا ہوگا؟اور یہ جو اڑن کھٹولے پر ’’اشٹام فروشوں والی جمہوریت‘‘ لائی جارہی ہے بہت جلد اس کا بٹوارہ ہوگا اور ایک دن آئے گا تمہارا خان زچ ہو جائے گا۔ مجھے بھی نیا پاکستان چاہئے مگر میں بلیک میلروں کے گٹھ جوڑ سے اپنا پراناپاکستان محفوظ کرلوں تو یہی کافی ہے۔ اپنے انصافی دوست کے جذبے کو دیکھتا ہوں توایک سچ یہ بھی کہے دیتا ہوں کہ یہ قوم آج جس جذبے کے ساتھ نئے پاکستان کی بنیادیں پختہ کرنا چاہتی ہے اسے ماند نہ پڑنے دیجئے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو پرانے پاکستان کو نئے پاکستان سے جوڑ سکتا ہے جو اس جذبے کو حقیقت کا روپ دے گیا وہی سکندر۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین