• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑھتی ہوئی آبادی اِس کرہٴ ارض کا آج کا سب سے بڑا ایشو ہے۔ اگر آبادی اتنی تیزی سے نہ بڑھے تو انسان بڑے بڑے مسائل پر قابو پا سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر ہمارے بہت سے پڑھے لکھے حلقوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم اِس نقطے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر اِس نقطے کو مان لیا جائے تو پھر آج کی دنیا میں جتنی غیر ہموار دولت کی تقسیم ہے اور جس لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں یہ اونچ نیچ وجود میں آئی ہے اسے ایک کور Cover مل جاتا ہے اور توجہ اصل مسئلے سے ہٹ جاتی ہے۔ عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر ایک گھر میں چار کے بجائے آٹھ کھانے والے لوگ ہو جائیں تو مشکل بڑھ جائے گی۔ عموماً یہ نقطہ نظر اِس بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے کہ کمانے والا ایک ہی ہے اور یہ مفروضہ بھی برقرار رکھا جاتا ہے کہ افراد میں اضافے کے ساتھ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ذرائع بھی بدلتے ہیں اور کمانے والے ہاتھوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اگر زندگی پلاننگ کے ساتھ گزاری جارہی ہے تو وسائل کو آبادی میں اضافے کی رفتار سے کہیں زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ پرانے وقتوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ اِس کرہ ارض پر 300 ملین (30 کروڑ) سے زیادہ انسان نہیں رہ سکتے یا رہ سکیں گے لیکن آہستہ آہستہ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور نئے مسائل پر بھی قابو پایا جاتا رہا ہے۔ اِس وقت وقت ہم 6 ارب عبور کر چکے ہیں اور ساتواں ارب چند برسوں میں پورا کرنے والے ہیں۔ ابھی بھی کچھ ماہرین یہ خیال پیش کررہے ہیں کہ جب اِس کرہ ارض پر آبادی 15 ارب کو چھو لے گی تو وسائل ختم ہوجائیں گے اور زمین اتنے انسانوں کا معاشی بوجھ اٹھانے سے جواب دے دے گی لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور شاید 30 ارب پر جا کر بھی ایسا نہیں ہوگا۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج کے انسانی مسائل کا بنیادی سبب آبادی نہیں ہے۔ تاہم چند خطوں میں یہ ایک مسئلہ ہوسکتا ہے جو کہ معاشی ترقی کے ساتھ کنٹرول میں آجائے گا۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات امریکہ کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات سے 5 گنا زیادہ ہے لیکن آبادی میں اضافے کا گراف ترقی پذیر ممالک میں بہت اوپر کی جانب ہے۔ بلکہ گزشتہ 60 برسوں میں 200 ملین سے 700 ملین تک پہنچی ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ڈیڑھ بلین سے 6 بلین تک جا پہنچی ہے۔ جس کی وجہ شرح اموات پر کنٹرول اور علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی دستیابی ہے۔ وگرنہ بچوں کی پیدائش تو پرانے وقتوں میں بھی اِسی شرح سے تھی لیکن زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان اس لئے بھی تھا کہ بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ عام طور پر والدین چھ سات بچے پیدا کرتے تھے جبکہ اُن میں سے بچتے تین چار تھے اوروہ اولاد والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہوتی تھی اس لئے والدین اپنا بڑھاپا اور مستقبل محفوظ کرنے کے لئے زیادہ بچے پیدا کرتے تھے لیکن اب خود بخود چھوٹے خاندان کا رجحان بڑھ رہا ہے ایک تو والدین کو یہ ڈر اور خطرہ کم ہو گیا ہے کہ بچے زندہ نہیں رہیں گے۔ دوسرا یہ کہ جن معاشروں میں بوڑھے لوگوں کی ذمہ داری ریاست نے لے لی ہے وہاں والدین کو اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لئے اولاد پیدا کرنے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی جیسے جیسے ریاست فرد کی ذمہ داری اٹھاتی جائے گی۔ اتنا ہی اولاد پر انحصاری نظریہ دم توڑتا جائے گا۔ اِس وقت گنجان آباد خطوں میں آبادی کا زیادہ حصہ گھٹیا کوالٹی کی خوراک اور سہولیات سے بے بہرہ زندگی گزارتا ہے۔ جس کا سبب بھی زیادہ آبادی نہیں ہے بلکہ وسائل کو بروئے کار لانے کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ وگرنہ ہم دنیا میں ایسے ممالک دیکھ سکتے ہیں جہاں آبادی بہت کم ہونے کے باوجود بھوک، بیماری اور جہالت اپنے عروج پر ہے وہاں وسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ بلکہ قدرتی وسائل سے وہ ممالک اتنے مالامال ہیں کہ پوری دنیا کو روٹی دے سکتے ہیں۔ صومالیہ، افغانستان، سوڈان، ایتھوپیا، پاکستان میں بلوچستان، انڈیا میں راجستھان ایسے خطے ہیں جہاں آبادی بہت کم ہونے کے باوجود پسماندگی اپنے عروج پر ہے۔ دراصل یہ سارے کا سارا عدم توازن وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ہے۔ ساری دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں جھانک کے دیکھیں۔ وہاں آپ کو بہت امیر ترین طبقہ بھی ملے گا۔ یہ سب دراصل وسائل کی بندربانٹ کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا تھوڑا سا حصہ بہت با وسائل اور خوشحال ہے اور یہی طبقہ دوسرے علاقوں اور عوام میں خوشحالی نہیں آنے دیتا۔ یہ ناہمواری اس کے مفاد میں ہے۔ درج ذیل کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں ہمارے دانشور گنجان آبادی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام مسائل سوچ کے دھارے میں تبدیلی اور منصوبہ بندی سے حل ہو سکتے ہیں۔ آج دنیا میں عورتوں کی نصف اور مردوں کی ایک تہائی آبادی بالکل اَن پڑھ ہے۔ آبادی کا یہ محروم Deprived حصہ تعلیم کے بغیر اپنے مسائل پر قابو نہیں پا سکتا۔ دنیا میں رائج تعلیمی نظام دیکھیں تو جو نصف آبادی تعلیم سے محروم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی تعداد وسائل سے آگے جاچکی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ طبقاتی تعلیمی نظام ہے۔ جو صرف مخصوص کلاس کے لئے ہے۔ تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ یہ محروم طبقہ اس کے حصول کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ جبکہ یہ مخصوص مراعات یافتہ طبقہ بھاری فیسیں بھی برداشت کرسکتا ہے۔ آگے چل کر محروم طبقے پر حکمرانی بھی اس طبقے کا مقصد ہے۔ یہی بنیادی ضروریات ہیں۔ جن کے گرد بیشتر آبادی اپنی تمام زندگی گزارتی ہے۔ اب تو ایسا نظام معرض وجود میں آچکا ہے کہ دنیا کی دولت چند ہاتوں میں سمٹ چکی ہے۔ جبکہ 80% آبادی بڑی ہمت اور جانفشانی سے بنیادی ضروریات کما پاتی ہے۔ وگرنہ اتنی آبادی تو پیداوار کے لئے ایسا آلہ (TOOL ) ہے۔ جس سے زمین کے اندر چھپے خزانے موجودہ سے کئی گنا زیادہ آبادی کو بھی خوراک، لباس اور رہائش دے سکتے ہیں، دراصل یہ وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی مراعات یافتہ طبقے کی ایسی منصوبہ بندی ہے۔ جس میں محروم طبقے کو ایسی کسمپرسی کی حالت میں قائم رکھنا ہی مقصود ہے۔ عموماً یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ آبادیوں کو رہائشی سہولتیں دینے کے لئے جنگلات کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ یہ بے بنیاد تصور ہے ۔ اگر آپ دنیا کے بیشتر جنگلات میں کٹائی کا کام دیکھیں تو وہ انسانی بستیاں بسانے کے لئے کم اور لوٹ کھسوٹ کے لئے زیادہ کیا جارہاہے۔ اور کٹائی والی جگہ پر نئے درخت بھی نہیں لگائے جاتے ۔ اسی طرح سے صحت کا ایشو اٹھایا جاتا ہے کہ زیادہ آبادی کی وجہ سے بیماریوں کی شکل میں مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹر اور نرسیں اور ہسپتال میسر نہیں ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹر حضرات بے روزگار بیٹھے ہیں۔ نرسوں کو کام میسر نہیں ہے ۔ ایسا یورپ میں بھی بہت واضح اور نمایاں ہے جہاں آبادی بھی کم ہے۔ یہ پلاننگ کا فقدان ہے اور پھر ایسا کلچر بن چکا ہے کہ ڈاکٹر اور نرسیں شہر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ وگر نہ آبادی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر کسی سطح پر یہ مسئلہ سنگینی کی طرف گیا بھی تو شعوری ترقی اسے کنٹرول میں لے آئیں گی۔ برطانیہ ہی کی مثال لے لیں۔ برطانیہ میں 1911 ء میں اعداد و شمار کے مطابق 63 فیصد انسان 60 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجاتے تھے۔ جبکہ اب مرنے والوں کی شرح کم ہو 12% فیصد رہ گئی ہے اور آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 1901ء میں برطانیہ میں اوسط عمر 47 برس تھی۔ جو اب 77 برس تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس عرصے میں معیشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1914 ء میں صرف 10% لوگ اپنے مکانوں پر مالکانہ حقوق رکھتے تھے۔ آج مالکوں کی تعداد 68 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس کے اثرات الٹ ہونے چاہئے تھے۔ اصل مسئلہ تو وسائل اور معیشت کی منصوبہ بندی کا ہے۔ اس لئے اس آبادی کے مسئلے کو دیگر سوسائٹی کے مسائل کا بنیادی سبب سمجھنا درست نہیں ہے۔ اس سے استحصالی طبقات کو اپنی لوٹ کھسوٹ پر پردہ پوشی کا جواز ملتا ہے اور ان کی اصل کارستانیوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
تازہ ترین