• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو دیکھتے ہوئے ہمارے کچھ صحافی دوست آزادی صحافت کے cause کے لیے سرکاری ٹی وی کو حکومتی اثر سے آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ وزارت اطلاعات کو ختم کر دیا جائے۔

میری ان دوستوں سے درخواست ہو گی کہ سرکاری ٹی وی اور وزارت اطلاعات کو چھوڑیں پہلے اپنے نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کو تو اُس غلامی سے آزاد کرلیں جس کا وہ شکار ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ سرکاری ٹی وی کے ٹاک شوز میں جانے کا موقع ملا اور جو دل میں آیا کہا کبھی کسی نے نہیں رُوکا۔ لیکن ایسا نام نہاد آزاد نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ممکن نہیں۔ نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کو جس دبائو کا گزشتہ چند ماہ سے سامنا رہا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سرکاری ٹی وی کو آزاد ی دلوانے کے لیے تو ہم آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ’’آزاد نجی ٹی وی چینلز‘‘ اور اخبارات کی آزادی کی کون بات کرے گا۔ جہاں تک وزارت اطلاعات کا تعلق ہےاُس کو کون پوچھتا ہے۔ اگر واقعی صحافت کو آزاد کرنا ہے تو پھر اس بارے میں سوچیں کہ کیوں اور کیسے ایک فون کال سے ٹی وی چینلز تک کوبند کر دیا جاتا ہے اور متاثرہ چینل کی بات تک عدالت سمیت کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کی صحافت کا وہ حال ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں ایک میڈیا ہائوس کے اہم عہدے پر فائز صحافی نے کہا ہر صحافی کو پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، اس سب کا مقصد کیا ہے لیکن ٹی ٹاک شوز میں شامل سب کچھ جاننے والے اینکرز اور تجزیہ کار آج تک یہی تاثر دے ہے ہیں جیسے انہیں کسی بات کا علم ہی نہیں۔

دوسروں سے کہتے ہیں ثبوت ہے تو سامنے لائو۔ ایک حالیہ ٹاک شو میں مجھ سے کہا گیا کہ اگر واقعی کوئی دبائو ہے تو آپ سچ کیوں نہیں بولتے۔ میں نے جواب دیا کہ اگر کوئی دبائو نہیں تھا تو پھر نواز شریف اور مریم نواز کی لند ن سے واپسی پر ن لیگ کی لاہور میں ریلی کو کیوں کسی چینل نے نہیں دکھایا، کیوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز کے اُس عدالتی فیصلے کو ٹی وی چینلز نے سنسر کر دیا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ کس طرح ایک ایجنسی کے کہنے پر عدالتی بنچ بنتے ہیں؟جب ٹی ٹاک شوز کا کیمرہ آف ہوتا ہے پھر سب بول پڑتے ہیں اورمانتے ہیں کہ کس طرح انتخابات کو manage کیا گیا اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے۔ انتخابات کے نتائج کو سرکاری ٹی وی کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔ جو سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اُن میں اکثر کا فوکس پولنگ کی شام ہونے والے واقعات سے ہے ۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ابھی تک سامنے آنے والے مطالبات کا تعلق بھی پولنگ ، ووٹوں کی گنتی، RTS کی ناکامی ، پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالنا، فارم 45 کا نہ ملنا، اور پریذائڈنگ افسروں کا اپنے پولنگ اسٹیشن کے نتائج کے ساتھ کئی گھنٹوں کی تاخیر سے ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں پہنچنا سے ہے۔

ابھی تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ انتخابات سے قبل کیا کیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ جانچنا چاہتا ہے کہ کیا مبینہ طور پر الیکشن کسی ایک سیاسی جماعت کو جتوانے اور کسی دوسری سیاسی پارٹی کو ہرانے کے لیے manage کیے گئے تو اس کے لیے الیکشن سے قبل کے واقعات اور حالات کے متعلق تحقیقات بہت ضروری ہیں ۔ اب تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی الیکشن کے متعلق سوال اٹھا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے روز تین باراُنہوں چیف الیکشن کمشنر کو فون کیا لیکن اُنہوں نے جواب نہیں دیا شاید وہ سو رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن اچھا خاصا چل رہا تھاRTS سسٹم بیٹھ گیا، کمیشن نے مہربانی کر دی۔ چیف جسٹس نے درست کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے لیکن وہ صرف الیکشن والے دن ہی نہیں بلکہ الیکشن سےپہلے بھی سوتے رہے، الیکشن کی شام اور رات کو جب دھاندلی دھاندلی کا شور مچا وہ پھر بھی سوتے رہے ۔ وہ سوتے رہے اوراپوزیشن کے بقول مبینہ طور پر کوئی انتخابات چوری ہی کر گیا۔

تحقیقات ہونی چاہے کہ الیکشن کمشنر خود سو گئے یا انہیں سلا دیا گیا تھا۔ اس کا جواب تحقیقات سے ہی بھی ممکن ہے اس بارے میں ابھی کسی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بحرحال انتخابات ہو چکے۔ دھاندلی کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے اور اب بھی لگ رہے ہیں۔ لیکن مبینہ طور پر جس طرح پاکستان کی صحافت کو اس بار استعمال کیا گیا اس سے پہلے کبھی ایسا نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ اس تناظر میں پاکستان کی صحافت کا کیا مستقبل ہو گا اس بارے میں میں کوئی زیادہ پرامید نہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین