• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن نثار کے کالے قول سے ہی آغاز کہ ’’ جس معاشرے میں محدود لوگوں کے پاس لامحدود ہووہاں لامحدود لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا ‘‘

اس پر کیا بات کرنی کہ اگر اپوزیشن کی نظر میں 25جولائی فراڈ تو پھر چند حلقوں کی ری کائونٹنگ کیوں، جہاں جہاں کوئی چانس نظر آرہا وہاں وہاں حکومت سازی، ساجھے داریاں کیوں، اگر 25جولائی فراڈ تو شہباز شریف وزارت ِ عظمیٰ، اپوزیشن لیڈر کے امیدوار کیوں، خورشید شاہ اسپیکر شپ کیلئے کیوں لابنگ کر رہے، باقیوں کو رہنے دیں، پورا الیکشن مسترد کرکے سڑکوں پر آچکے مولانا فضل الرحمٰن اپنے بیٹے کو ڈپٹی اسپیکر کیلئے کیوں کھڑا کر رہے، کیا یہ ممکن کہ بکرے کا سر حلال، دھڑ حرام ہو، اس کا بھی کیا ذکر کرنا کہ جماعت اسلامی وزیراعظم کیلئے مسلم لیگ ن، اسپیکر کیلئے پی پی کوووٹ دے کر بھی کرپشن فری پاکستان کا مشن جاری رکھے گی، اس کا بھی کیا تذکرہ کہ بھٹو کے وارث جن کا الیکشن سلوگن ’’ بی بی کا مشن اپناناہے، پاکستان بچانا ہے‘‘ وہ اب بی بی سیکورٹی رسک ہے والوں سے اتحاد کئے بیٹھے، مطلب وہ بلاول جو انکل نواز شریف کو مودی کا یار کہا کرتے، وہ زرداری صاحب جو ’’مک گیا تیرا شو نواز، گو نواز گو نواز‘‘ کے نعرے مارا کرتے، وہ شہباز شریف جو علی بابا چالیس چوروں کے پیٹ چیرنے، سٹرکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے، جو ابھی کل ہی سندھ جا کر ’’مرسوں مرسوں، کم نہ کرسوں‘‘ کہہ رہے تھے، سب ایک ہو چکے، اسے بھی رہنے دیں کہ کل عمران خان جس ایم کیو ایم کو کراچی کی تباہی، تمام خرابیوں کی ذمہ دار کہا کرتے، آج اسی ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر وہ کراچی بچاؤ مہم پر نکلنے والے، اسے بھی چھوڑ دیں کہ کل جو دھاندلی سے متعلق ایک بات سننے کو تیار نہ تھے، آج وہ دھاندلی دھاندلی کر رہے، یعنی پچھلے موڑ پر ڈاکے، اگلے چوک پر چور چور کہہ کر چور کے پیچھے بھاگا جارہا، یہ بھی پھر کبھی کہ کل جو کہا کرتے تھے کہ ہماری معیشت تو مضبوط، مستحکم، ہم تو ایشین ٹائیگر بننے والے، آج وہی کہہ رہے کہ اب دیکھتے ہیں کہ نئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے بنا معاشی دلدل سے کیسے نکلے گی اور یہ رونا دھونا بھی کسی اور دن کہ اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل ملک کو کون کون سے ٹیکے لگا گئے، ہمارا کیا کیا گروی رکھا جا چکا، آخری روز لیگی حکومت نے 200ارب نکال کر کہاں لگا دیئے اور الیکشن کمیشن نکما، نااہل یا وہ تمام نا اہل، نکمے جو سالہا سال اقتدار کے بعد ایک الیکشن کمیشن کو پاؤں پر نہ کھڑا کرپائے، یہ سب اور بہت کچھ پھر کبھی، آج بات یہ کرنی کہ خارجہ پالیسی ناکام، سب بارڈرز ایکٹو، داخلی عدم استحکام انتہا پر، تمام ادارے وینٹی لیٹر پر، 10سے 12ارب ڈالر چاہئیں ہنگامی طور پر، ملک چلانے کیلئے، قرضے، قرضوں کا سود الگ۔

ایک طرف یہ بربادی، دوسری طرف عمران خان، ان کی نیت پر شک، خلوص پر شبہ نہیں، وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، انہیں مناسب وقت بھی ملنا چاہیے، لیکن یہ بھی سچ کہ خود تجربہ نہیں، ٹیم کمزور، پارٹی میں اختلافات، لڑائیاں الگ، آج کابینہ، وزراء اعلیٰ کے ناموں میں ہی پھنسے یا اگلے مرحلے میں اداروں کے سربراہ مقرر کرنے جیسے چیلنج کا سامنا کرنے والے عمران خان کیلئے یہ سب اتنا مشکل نہ ہوتا اگر وہ پارلیمنٹ پر ’’تین لفظ‘‘ بھیجنے کے بجائے اپوزیشن میں رہ کر شیڈو کابینہ بنا لیتے، انہیں اپنے لوگوں کی قابلیت کا پتا چل جاتا، وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر بن کر اس کے اجلاسوں میں ہی شریک ہو جاتے تو بیوروکریسی کی ورکنگ کا پتا چل چکا ہوتا، غلط کاریاں، چور بازاریاں، دونمبریاں کیسے ہوتی ہیں، معلوم ہو چکا ہوتا، مگر وہ وقت گزرگیا، اب وقت کچھ کرنے کا، پاکستان تاریخ کے اہم موڑ پر، قوم بے مثل سحرکا شکار، شام سے پہلے 70سالہ مسائل کا حل نکالنے کی خواہش مند، کل کا یہودی ایجنٹ، طالبان خان، پاگل خان، یوٹرن خان، کسی کا مہرہ آج عوامی امیدوں کا مرکز اور کیا ہے جو نہیں ہوسکتا، دنیا کیا نہ کرچکی، اگر کینیڈا اپنے امیگریشن مسائل پر قابو پاسکتا ہے، چین، بھارت، جاپان دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، انڈونیشیا دہشت گردی کا جن بوتل میں بند کر سکتا ہے، بھوٹان ماحولیات میں دنیا کا بہترین ملک بن سکتا ہے، ترکی، اردن، ملائیشیا سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں، تھائی لینڈایڈز فری ہو سکتا ہے، سنگاپور کرپشن کی جڑیں کاٹ سکتا ہے، ہالینڈ صرف پھولوں سے 11بلین ڈالر سالانہ کما سکتا ہے، سری لنکا پوری دنیا کو ویٹرز، بنگلہ دیش کُک، فلپائن سینٹری ورکرز سپلائی کر سکتا ہے، اسپین پوری دنیا کو زیتون، اورنج، سرکہ فراہم کرکے معیشت کو آسمان تک لے جاسکتا ہے تو ہم کیوں کچھ نہیں کر سکتے، ہم کیوں اپنے مسائل سے چھٹکارا نہیں پاسکتے، ہم صرف چٹنی، اچار، جیم پر ہی فوکس کر لیں، کینو کی انڈسٹری کو ہی آگے بڑھا لیں، لہسن، پیاز،ہلدی کو ہی بہتر بنالیں، ملک کے 10مقامات کو ٹورازم سائٹس ڈکلیئر کر کے دنیا کو متوجہ کر لیں تو کہیں سے کہیں پہنچ جائیں، بس کپتان کی مینجمنٹ، فیصلے ٹھیک ہوں، ٹیم ساتھ دے، سب روندو سیاست کو نظر انداز کردیں، کسی فضول جھگڑے، لاحاصل بحث میں نہ پڑیں، سرجھکا کرچلتے رہیں۔

بلاشبہ مسائل ایسے کہ اگر آج معاشی مارشل لا کی ضرورت تو کل آبی مارشل لا لگانا پڑے گا، جس ملک کو 3ڈیموں کی اشد ضرورت، اس ملک میں سالانہ 21ارب کا پانی کھیتوں کی بجائے سمندر کی نذر ہو جائے، بارشوں کا پانی الگ، زیر زمین پانی کا حال یہ کہ پہلے ہر شہری کیلئے 5سے 6ہزا ر کیوبک میٹر پانی تھا، اب ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا، حکمرانیاں ایسیں کہ دیامر بھاشا ڈیم کا پہلا افتتاح کیا شوکت عزیز نے اکتوبر 2007ء میں، یوسف رضا گیلانی نے دوسرا افتتاح کر دیا اکتوبر 2011میں، نوازشریف آئے تو تیسرا سنگ بنیاد رکھ دیا، مگر جس ڈیم نے 2016میں مکمل ہونا تھا وہ 10سال، اربو ں روپے ضائع ہونے کے بعد بھی ابھی تک مکمل نہ ہو سکا، 395ارب سے لاگت پہنچ چکی 928ارب تک، بلاشبہ ڈیمز چندوں سے نہیں بنتے، مہینوں میں نہیں بنتے، یہ منصوبے کروڑوں، اربوں ڈالر کے خرچے مگر نیت صاف، ارادہ پختہ، مستقل مزاجی ہو توبات بن ہی جاتی ہے، باقی اپنے نام کی تختی لگانے، پھر بھول جانے سے ڈیم کیا ڈیمی بھی نہ بنی اور بن سکے گی۔

کپتان کو یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان ایجنڈوں، منشوروں کا قبرستان، جو بھی آیا، ایجنڈے کے ساتھ آیا، مگر کسی کا کوئی ایجنڈا پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا، کیوں، اس لئے کہ ایجنڈا پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے نہ لائحہ عمل تھا اور نہ ٹیم، لہذا حکمران آتے رہے، منصوبہ بندی کے بنا ملک کھودتے رہے، آج چاروں جانب گڑھے ہی گڑھے، بھٹو کا روٹی، کپڑا، مکان، ضیاء کی چادر چار دیواری کا تحفظ، افغان جہاد، بی بی، میاں کے ایجنڈے، مشرف کا 7نکاتی پروگرام، زرداری حکومت اور تیسری مرتبہ آئے میاں صاحب کے وعدے، دعوے او رعملی صورتحال، سب، سب کے سامنے، یہاں فیصلے کیسے سوچے سمجھے بنا ہوں، ایک مثال حاضر، ایکدن نجانے بیٹھے بٹھائے شوکت عزیزکو کیاسوجھی کہ اے سی سستے، گاڑیا ں لیزپر کر دیں، لوگوں نے دھڑا دھڑ گاڑیاں خریدیں، ہر کمرے میں اے سی لگا لیا، نتیجہ۔۔ پٹر ول، بجلی کا استعمال 3گنا بڑھا، حکومت نے پٹرول پریشر کم کرنے کیلئے سی این جی اسٹیشن لگادیئے، گیس سے بجلی بننے لگی، نتیجہ۔ گیس کا بھٹہ بیٹھا، چولہے بجھے، فیکٹریاں بند ہوئیں، ملک اندھیرے، بے روزگاری میں ڈوبا، اسٹریٹ کرائم بڑھا، پولیس، عدلیہ پر اضافی بوجھ آیا اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔

کپتان کو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ انہیں وہ پاکستان ملا جس میں ویسے تو 10کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے، مگر اصل صورتحال یہ کہ 90فیصد بنیادی سہولتوں سے محروم، سندھ قبرستان، کے پی وار زون، پنجاب کے مسائل ایک طرف، نئے صوبے کا پل صراط ہی کافی، بلوچستان کا حال یہ کہ پچھلے ہفتے ایک بڑے نے بتایا کہ چند سال پہلے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں جب جلدی بیماریاں، سینے پر بوجھ والے مریضوں کی بھرمار ہوگئی تو ہم نے کھوج لگائی، پتا چلا کہ چولہا افورڈ نہ کر سکنے اور پتھروں پر روٹیاں پکانے والے یہ بھوکے ننگے دواڑھائی ماہ سے اس کھانسی کے سیرپ میں روٹیاں ڈبوڈبوکر کھا رہے جو عالمی ادارہ صحت کی ٹیمیں انہیں وافر مقدار میں مفت دے گئی تھیں، یعنی لوگ کھانسی کے سیرپ کو سالن کی جگہ استعمال کر رہے اور مر رہے تھے، اب بلوچستان کا بجٹ، وہاں کے سرداروں کے ٹھاٹ باٹھ یا یہی دیکھ لیں کہ ایک صوبائی سیکرٹری خزانہ کے گھر سے اتنے پیسے نکلے کہ نوٹ گننے کیلئے مشینیں منگوانا پڑیں، الحمد للہ اب تو ان کی ضمانت بھی ہو چکی، کیا حال کر دیا گیا پاکستان کا، ایک طرف دبئی، انگلینڈ کے مالک، دوسری طرف کھانسی سیرپ سے روٹیاں کھاتی مخلوق، پھر سے حسن نثار کا کالا قول یا دآجائے کہ ’’جس معاشرے میں محدود لوگوں کے پاس لامحدود ہو، وہاں لامحدود لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا‘‘۔

تازہ ترین