• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں تبدیلی کا نعرہ خوب گونج رہا ہے، پرانے پاکستان کی جگہ نئے پاکستان کی باتیں زبان زدِ عام و خاص ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا بلکہ نئے پاکستان کا نعرہ بنیادی طور پر بھٹو ہی کا تھا۔ ہم نے ان تمام نعروں اور نعرے بازوں کا تفصیلی جائزہ لیا تو ہم پر یہ راز کھلا کہ یہاں تبدیلی مطلوب کسی کو بھی نہ تھی اور نہ ہے، مقصد اقتدار میں آنا یا اسے برقرار رکھنا ہے۔


تبدیلی کی خواہش کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ حالات کا مارا یا تلخیوں کے گرداب میں پھنسا انسان جب مایوسیوں کے بحرِ ظلمات میں ڈوب رہا ہوتا ہے تو تبدیلی کا نعرہ اس کے لیے جینے کی نئی امنگ یا امید لاتا ہے۔ تبدیلی کے بالمقابل یا مترادف لفظ ’’جمود‘‘ بولا جا سکتا ہے جو موت ہی کا دوسرا نام ہے۔ تبدیلی کے لیے شعوری کایا پلٹ اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر عملی طور پر کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے تبدیلی کے تمام تر علمبرداروں یا نعرے بازوں میں سے کسی ایک نے بھی قوم کی ذہنی کایا پلٹ کے لیے مجال ہے جو کبھی منصوبہ بندی کی ہو۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ شعوری دریچے کھلنے کے بعد بھی تبدیلی کے دو راستے ہوتے ہیں ایک انقلاب اور دوسرے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے آگے بڑھنا یعنی روایت کو ساتھ لے کر بھی تبدیلی کے لیے آگے بڑھا جا سکتا ہے جہاں تک ہمارے پاکستانی سماج کا تعلق ہے اس میں کسی انقلاب کی توقع رکھنا بڑی حد تک عبث ہے، ویسے بھی دنیا میں انقلابِ فرانس کے علاوہ شاید ہی کوئی حقیقی عوامی انقلاب آیا ہو۔ سنٹرل ایشیا میں 1917کے سوویت انقلاب کو بھی شاید حقیقی عوامی انقلاب کے بجائے جبری انقلاب کہنا مناسب ہو گا کیونکہ عوام کو اس سے ایسا کچھ حاصل نہیں ہوا جس کا دعویٰ کیا جاتا رہا اور بالآخر عوام نے ہی گوربا چوف کے تعاون سے اس کو تہس نہس کر ڈالا۔ انقلاب ایران کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ کسی مسلم سماج میں حقیقی انقلاب اتاترک کی قیادت میں ترکوں کی کایا پلٹ ہے جس نے قومی شعور اور مزاج کو جوہری طور پر بدل ڈالا۔


احباب بارہا یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں جتنے برے حالات ہیں انہیں دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود آپ کیونکر یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہاں انقلاب نہیں آ سکتا۔ ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی خطے میں انقلاب برپا ہونے سے پہلے محرومین کے اندر ایک شعوری فضا بنتی ہے جس سے ہم فی الوقت محروم ہیں۔


1973ء کے آئین کے تناظر میں ہم حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ سے پوری ہمدردی رکھتے ہیں ان کے عزم اور ولولے کی بھی داد دیتے ہیں لیکن اگر وہ دھاندلی کا نعرہ لے کر 77ء کی طرح میدان میں اترتے ہیں تو انہیں ثبوت بھی فراہم کرنا ہوں گے۔ دھاندلی کے خلاف آپ کے والد مرحوم نے کامیاب تحریک چلائی تھی مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آؤٹ پٹ اُس تحریک کی کیا نکلی تھی؟ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے تمام جمہوریت پسندوں کو یاد رہنا چاہیے کہ یہاں کوئی بھی تحریک عوامی حمایت کے بغیر نہ پروان چڑھتی ہے نہ ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ درویش یہاں پوری ذمہ داری اور تیقن کے ساتھ تحریر کیے دیتا ہے کہ مملکتِ پاکستان میں حقیقی و پائیدار تبدیلی کا خواب اُس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ہماری سوسائٹی میں آزادی اظہار کے اصول کو ایک اعلیٰ انسانی قدر کی حیثیت سے منوا نہیں لیا جاتا۔ پرامن احتجاج تو زندگی کی علامت اور اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔


قصہ مختصر تبدیلی کی یہ جنگ حکمت، دانش اور تدبر کے ساتھ لڑنی ہوگی۔ انقلاب کے خوشنما الفاظ کے بجائے شعوری ارتقاء پر دھیان دینا ہوگا۔ کچھ خواص کی زیادتیوں، خامیوں، کوتاہیوں کو پکڑتے ہوئے ان کے بیچ میں سے راہ نکالنی ہوگی اپنا پیغام اپنے مفاد میں نہیں خالصتاً عوامی مفاد میں پیش کرنا ہوگا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلاشبہ خوبصورت اور جنیوئن ہے مگر اس کا ابلاغ یوں ہو رہا ہے کہ آپ اپنے ذاتی مفاد کے لیے یہ سب قربانیاں دے رہے ہیں جب آپ کے پاس اختیار تھا تب آپ نے پیش بندی کے طور پر ان حوالوں سے کیا اہتمام کیا؟ تب آپ نے عوامی اقتدار اعلیٰ کے منافی تمام سوراخوں کو بند کرنے کے لیے سیاسی معاونت کیوں حاصل نہ کی؟ اب بھی اگر جمہوری الذہن قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے تو کامیابی کی طرف بڑھ سکیں گے۔


تبدیلی کے تمامتر نعروں کے علی الرغم آپ قوم پر واضح کریں کہ تبدیلی درحقیقت ہوتی کیا ہے؟ عوام کے لیے اس کے کیا ثمرات برآمد ہوں گے؟ عوامی اقتدارِ اعلیٰ کیا ہوتا ہے؟ آخر ہمارے عوام آئیڈیل جمہوریت کی برکات سے کیوں بہرہ ور نہیں ہو سکتے؟ حیرت ہے محترمہ بے نظیر جیسی عظیم سیاستدان کا بیٹا مودی کے یار کا نفرت آمیز نعرہ لگاتا ہے اور یہاں لاکھوں لوگ اُسے Justify کرتے پائے جاتے ہیں ایسے میں تبدیلی کے نعرے آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں نیا پاکستان میں کہتا ہوں آپ جناح کا پاکستان ہی بنا لیں تو بڑی بات ہے جس کے وزیر قانون، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سب غیر مسلم تھے۔ آج ان میں سے کوئی ایک بات بھی ممکن رہی ہے؟ وہ جس اعتماد کے ساتھ پہلی دستور ساز اسمبلی میں قائد اور بانی پاکستان کی حیثیت سے دستوری مبادیات سمجھا رہے تھے کہ ’’پاکستانی شہری کی حیثیت سے آپ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہو گا‘‘ کس میں یہ دم ہے کہ آج اتنی ٹھوس دلیل کے ساتھ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے یہ دستوری بنیادیں فراہم کرے جویہ کہے کہ پاک ہند تعلقات امریکا اور کینیڈا جیسے استوار کروں گا جو یہ عزم رکھتا ہو کہ مملکت کے تمام ادارے منتخب سیٹ اپ کی ماتحتی میں چلیں گے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین