• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان معدنی ذخائر کی دولت سے مالامال ایک امیر ملک ہے مگر نااہل سیاسی قیادت کے باعث اس زیر زمین دولت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا یہی وجہ ہے کہ ہم کشکول اٹھا کر دنیا بھر سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ایک اور دلچسپ مگر حیرت انگیز اتفاق یہ ہے کہ جب کبھی کسی حکومت نے کشکول توڑکر اپنے وسائل پر انحصارکرنے کادعویٰ کیا تو غیر ملکی قرضوں کا حجم مزید بڑھ گیا اور بعد ازاں یہ حقیقت طشت ازبام ہوئی کہ کشکول اس حکمت کے تحت توڑا گیاتھا کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے باعث پہلے سے بڑا نیا کشکول لیکر قرضوں کی نئی بھیک مانگ سکیں ۔ذوالفقار علی بھٹو جیسازیرک سیاستدان بھی ایک دن قومی اسمبلی میں سیاہ محلول کی شیشی لے آیا اور ایوان میں لہراتے ہوئے یہ خوشخبری دی کہ کوہ سفید کے قریب کھدائی کے نتیجے میں تیل نکل آیا ہے بس اب ہمیں کشکول لیکر نہیں گھومنا پڑے گا ،ملک و قوم کی تقدیر بدلنے والی ہے۔نوے کی دہائی میں یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ چاغی کے پہاڑوں میں سونے ،چاندی اور تانبے کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا ہے ۔1993ء میں نگران حکومت کا مینڈیٹ تو نئے انتخابات تک روزمرہ کے معاملات چلانا تھا لیکن بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ نصیر مینگل نے ایک غیر ملکی کمپنی کو چاغی کے پہاڑوں سے سونا اور تانبا نکالنے کا ٹھیکہ دیدیا ۔یہ ٹھیکہ ملنے پر بلوچوں نے سوچا بس اب غربت اور تنگدستی ختم ہوکر رہے گی اور ہمارے ہاں بھی ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور میں ایک بار پھریہ غلغلہ ہواکہ ریکوڈک میں سونے اور چاندی کا سب سے بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جس کا دنیا کی کسی کان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ہم یہ سوچ کر ہوائوں میں اڑنے لگے کہ ریکوڈک سے 2.2بلین ٹن سونا اور تانبا نکالا جا رہا ہے۔ایک مرتبہ پھر غیر ملکی کمپنیوں کے اشتراک سے ان بیش قیمت ذخائر کی کھدائی کا معاہدہ ہوا ۔جب کنگلوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے گھر میں سونے کی دیگ موجود ہے تو کھدائی مکمل ہونے سے پہلے ہی اس بات پر لڑ پڑتے ہیں کہ کسے کتنا حصہ ملے گا ،ریکوڈک کے معاملے میں بھی اسی قسم کے جھگڑے شروع ہو گئے ۔اس دوران عدلیہ کا’’افتخار‘‘ بحال ہو گیا اور انقلابی نوعیت کے تاریخی فیصلے ہونے لگے ۔ریکوڈک سے متعلق بھی ازخود نوٹس لے لیا گیا اور2013ء میں سپریم کورٹ نے غیر ملکی کمپنی کیساتھ حکومت پاکستان کے معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا ۔ غیر ملکی کمپنی جو اب تک فزیبلٹی اور اس نوعیت کے دیگر اخراجات پر اربوں روپے خرچ کر چکی تھی ،اس نے ہرجانہ وصول کرنے کے لئے عالمی فورمز سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔2018کے آغاز میں عالمی بینک کی ثالثی کونسل نے اس غیر ملکی کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کو 11.43بلین ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اب اس کمپنی سے آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے لئے بات چیت کی جا رہی ہے۔

ہر نئی حکومت ترقی و خوشحال کے نئے خواب دکھا کر کشکول توڑنے کا وعدہ کرتی ہے اوربہت جلد اس ٹوٹے ہوئے کشکول اور ریزہ ریزہ ہوئے خوابوں کی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی محسوس ہوتی ہیں۔آپ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کی مثال لے لیں ۔پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کرنے والے آغا وقار جیسے شعبدہ بازوں کو تو ایک طرف رکھ چھوڑیں ،مستند سائنسدانوں نے بھی اس قوم سے کچھ کم کھلواڑ نہیں کیا ۔ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایک دن یہ انکشاف کرکے قوم کے ہوش اڑا دیئے کہ تھرمیں 175ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں ۔ڈاکٹر ثمرمبارک مند کا دعویٰ تھا کہ اس کوئلے کو زمین سے نکالے بغیر پائپ لگاکر زیرزمین سلگائیں گے اور اس سے نہ صرف بجلی بنائیں گے بلکہ گیس اور ڈیزل کی پیداوار میں بھی خودکفیل ہو جائیں گے ۔انہوں نے بتایا کہ تھرکول منصوبے سے ہم آئندہ 500سال تک سالانہ 50000میگا واٹ بجلی بنا سکتے ہیں اور ہر سال 100ملین بیرل ڈیزل پیدا کر سکتے ہیں جس سے نہ صرف ڈیزل کی سالانہ امپورٹ کا 9بلین ڈالر بل ختم ہو جائے گا بلکہ ہم دنیا کو ڈیزل برآمد بھی کر سکیں گے ۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئو دیکھا نہ تائو ،فوراً فنڈز جاری کر دیئے لیکن آج تک بجلی پیدا ہوئی نہ ڈیزل اور گیس ۔

اسی طرح چنیوٹ میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہونے کی سہانی گھڑی کسے یاد نہیں جب میاں نوازشریف بھاگم بھاگ چنیوٹ پہنچے اور یہ بیش قیمت ذخائر دریافت ہونے پر کشکول توڑنے کا اعلان کر دیا ۔وہ تو بھلا ہواسحاق ڈار کا جس نے واپسی پرکان میں سرگوشی کی، میاں صاحب! آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط وصول کرلیں اس کے بعد بیشک کشکول توڑ دیجئے گا مگر برائے مہربانی اس سے پہلے اس طرح کی بیان بازی سے گریز کریں ۔ایک تو ہمارے ہاں کوئی بھی چیز دنیا یا کم از کم ایشیا سے کم نہیں ہوتی ۔ یا تو ہم دنیا میں نمبر ون ہوتے ہیں یا پھر سب سے بڑے۔سب کی اپنی اپنی الگ دنیا ہے اور ہر ایک کا اپنا اپنا ایشیا۔سندھ کے چھوٹے سے قصبے کُنری والے کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی مرچ کی منڈی ان کے ہاں ہے۔کندھ کوٹ والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی آڑھت کو ایشیا کی سب سے بڑی چاول منڈی کا درجہ حاصل ہے۔ کراچی والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا کراس کا نشان ان کے ہاں گورا قبرستان میں نصب ہے ،موٹروے پر پشاور انٹرچینج بنی تو یار لوگوں نے بلا تردد کہہ دیا یہ ایشیا کی سب سے بڑی انٹر چینج ہے ،کوئی بڑا سیاسی جلسہ ہو جائے تو یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا اجتما ع تھا ۔اس لئے چنیوٹ میں دریافت ہونے والے مبینہ ذخائر کے بارے میں کہہ دیا گیا کہ یہ دنیا میں سونے اور چاندی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔

آئندہ چند روز میں عنان اقتدار سنبھالنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی معدنی ذخائر کی برسات ہونے لگی ہے ۔نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون جنہیں پاکستان کے سفارتی تعلقات سے متعلق رہنمائی کرنی چاہئے تھی ،انہوں نے قوم کو مالامال ہونے کی نوید دی ہے ۔ایک غیر ملکی انگریزی اخبار اور پھر پاکستان کے موقر انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عبداللہ حسین ہارون نے بتایا ہے کہ پاک ایران سرحد کے قریب 5000میٹر تک کھدائی کرنے والی امریکی کمپنی نے تیل کے ایسے ذخائر دریافت کئے ہیں جو کویت کے تیل کے ذخائر سے بھی بڑے ہیں ۔پاکستان چیمبر آف کامرس میں کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت جلد پاکستان تیل پیدا کرنے والے 10بڑے ممالک میں شامل کویت کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا جو اس وقت تیل پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے ۔دنیا کا ہر غریب اور کنگلا سوتے جاگتے بس یہی خواب دیکھتا ہے کہ کسی دن قدرت اسے چھپر پھاڑ کر نواز دے ،کوئی انہونی ہو جائے اور زیرزمین دبائے گئے خزانے کا پتہ مل جائے یا پھر راہ چلتے ہوئے روپوں سے بھرا ہوا بیگ ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں ۔جب حکومت میں بیٹھے لوگ اس طرح کی مالامال اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ افراد ہی نہیں اقوام اور ملک بھی کنگلے ہوں تو اسی طرح سوچتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین