• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں وقت کبھی نہیں رُکتا، چلتا رہتا ہے، رُخ ہمیشہ آگے کی طرف اور سڑک بھی ایسی سیدھی کہ جس پر کوئی گول چکر ہے نہ کسی سمت مڑنے کا اشارہ، تھکتا بھی نہیں کہ چند لمحے سستا ہی لے۔ جس کے ہاتھ میں اس کا ریموٹ ہے یہ اس کا اتنا تابع ہے کہ اک پل فرض سے کوتاہی ممکن نہیں۔ کائنات میں موجود ہر شے احساس سے بندھی ہے حتیٰ کہ خالصتاً مادی اشیا ہمارے احساسات کی زد میں آ کر محسوس کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وقت کے ہاتھ پر بندھی گھڑی کے سیل میعاد پوری کر لیں تو وہ وقت کے بارے میں اطلاعات دینا بند کر دیتی ہے مگر وقت کی نبض نہیں رُکتی، سانس بھی ہموار رہتا ہے۔ نہ ایندھن ختم ہوتا ہے نہ حوصلہ۔ قوت کا طاقتور جنریٹر اسے مسلسل چارج کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنی طے شدہ مخصوص رفتار کے مطابق چل رہا ہے مگر انسانی دل کے اشیا اور کائنات کے چلن کو ماپنے کے اپنے پیمانے ہیں۔ سو ہماری دلی کیفیات اس میں کمی اور تیزی کو محسوس بھی کرتی ہیں بلکہ جھیلتی بھی ہیں۔


وقت اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے، وقت کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس کا گزر جانا مرنے کے مترادف ہے۔ یوں جو وقت گزر جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ وقت کسی رہگزر پر دوبارہ پائوں نہیں رکھتا لیکن جہاں سے گزرتا ہے وہاں راستے بن جاتے ہیں۔ مگر زندگی میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب حقیقتاً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت رُک گیا ہو۔ اگر مکمل طور پر نہ بھی رُکے تو اس کی رفتار ضرور سست محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو کیا وقت ہمارے احساسات سے بندھا ہوا پیمانہ ہے کہ ہمیں بیماری اور غم کی کیفیت میں اس کی رفتار سست محسوس ہوتی ہے اور خوشی کی گھڑیاں اڑتی اور رقص کرتی۔ جس طرح خوشی کی گھڑی دھڑکن کو تیز کر دیتی ہے اسی طرح وقت کو بھی پر لگا دیتی ہے۔ مگر کبھی کبھی خوشی میں بھی ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے، وہ لمحہ جب انسان کو اپنے ہی دل کی دھڑکن کا شور سنائی نہیں دیتا بلکہ یوں لگتا ہے جیسے دل دھڑکنا ہی بھول گیا ہو۔ اس لمحے سارے احساسات و جذبات نظروں میں سمٹ آتے ہیں۔ مرشد کا دیدار وجود سمیت ہر شے کو عشق کی کیفیت میں قید کر کے جامد کر دیتا ہے۔ ہر شے ساکت ہو جاتی ہے۔ بولنے اور حرکت کرنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ آنکھوں میں گڑی آنکھیں وجود سمیت پورے ماحول کو ایک نقطے پر یوں مرکوز کر دیتی ہیں کہ اس کے سوا ہر شے کی ہستی دھندلا جاتی ہے، اوجھل ہو جاتی ہے، خود اپنی ہستی کا احساس کھو جاتا ہے۔ اس گھڑی واقعتا کائنات تھم جاتی ہے کیوں کہ ہمارا شعور اور احساس اس سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ ایسے لمحات زندگی کا اثاثہ ہوتے ہیں اور یادداشت میں بس کر امر ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ بعد میں جب کبھی ہم ان کے بارے میں سوچتے ہیں تو لمحہ بھر کو کہیں کھو جاتے ہیں اور وقت پھر تھما ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اصل میں انسان بڑی سیانی مخلوق ہے۔ اسے زندگی کی کڑی منزلوں کا ادراک ہے، اسے راستوں کی کٹھنائیوں کی خبر ہے، اسے علم ہے کہ اپنی پسند کی منزل کی طرف سفر کے دوران دکھ کی کڑی دھوپ اور زمانے کے تلخ رویئے زندگی کو اس طرح اجیرن کر سکتے ہیں کہ سانس لینا محال ہو جائے اس لئے خوشی اور سرشاری سے لدے احساسات کے لمحے یادوں کی پوٹلی میں باندھ کر محفوظ کر لیتا ہے اور اس زادِ راہ کو ہمیشہ ساتھ رکھتا ہے۔ جب ظاہری حالات کا جبر وجود کی برداشت سے باہر ہو جائے تو وہ زندگی کو توازن کے رستے پر رواں رکھنے کے لئے اس پوٹلی سے سنہری یادوں کی چھتری نکال کر سر پر تان لیتا ہے، اگر زیادہ تھک جائے تو اس کا خیمہ بنا کر کچھ وقت سستا لیتا ہے۔ وہ لمحے جب جاگتی آنکھیں درد سے دکھنے لگیں تو وہ کسی احساس کی گود میں سر رکھ کر ایسے منظر کے بارے میں سوچتا ہے جو اس کا سارا دکھ جذب کر کے اسے فرحت بخشے۔


زندگی کی موٹر وے پر سفر کے دوران ساتھ ساتھ بھاگتے منظر مجھے کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں۔ سفر کے دوران انسان پر کئی حیرتیں وا ہوتی ہیں، اسے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک ہوتا ہے، وہ بہت سے منصوبے بناتا ہے، جاگتی آنکھوں خواب دیکھتا ہے، رفتار کی طرح اس کا ذہن تانے بانے بنتا ہے مگر سہل اور رواں موٹر وے کا سفر ایک مقام پر جا کر رُک جاتا ہے اور پھر کچی پکی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ جتنی بھی کوشش کر لیں کچھ نہ کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے۔ اندھیرا مکمل ختم نہیں ہوتا نہ ہی خوب صورتی اپنے وجود سے بدصورتی کو محروم سکتی ہے۔ کبھی کبھی وقت چکی کے پاٹ بن جاتا ہے اور انسان کو اپنا آپ اس میں پستا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب فطرت کا نظام انسانی وجود کو بے بسی کے احساس میں یوں جکڑ لیتا ہے کہ کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اس آزمائش سے ہر فرد کو کسی نہ کسی حوالے سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ اسی وقت کو اس کی قوتِ برداشت اور صبر کا امتحان بھی کہا جاتا ہے۔ شاید یہ بھی ایک طرح کی ریاضت ہے۔ صوفی اپنی مرضی سے ریاضت کے مرحلے طے کرتا ہے تو اس پر روحانی اسرار آشکار ہوتے ہیں جو اسے طمانیت بخشتے ہیں جب کہ عام انسان کو وقت ان آزمائشوں سے گزارتا ہے۔ وقت اپنے ضابطوں کا پابند ہے جب کہ وقت کے حوالے سے ہر انسان کے اپنے ضابطے ہیں۔ انسان کا ذہن صرف مادی دنیا تک محدود نہیں۔ وہ بیک وقت طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی دنیا کا باسی ہے اور حدِّ ادراک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال میں لانے کے لئے اسے تیسری آنکھ وجدان کی رہنمائی میں چلنا پڑتا ہے۔ ظاہری کائنات حواس کی جکڑ میں ہے جب کہ باطنی دنیا روحانیت کے تابع جہاں وقت کے ضابطے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ جب انسان اپنی روحانی قوتوں کو تصرف میں لاتا ہے تو وہ بھی وقت کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ تخیل کے پروں پر بیٹھ کر لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیتا ہے۔ تخیل کی بدولت کبھی ماضی کا کواڑ کھول کر برسوں پرانی تہذیبوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور کبھی اپنی پرواز کا رُخ مستقبل کی طرف موڑ کر آنے والے وقت کی آہٹ سُن کر پیشگوئیاں کرنے لگتا ہے۔ خواب بھی ایسا ہی سلسلہ ہے جو انسان کو زمانے کی محدود سرحدوں سے لامحدود کی طرف لے جا کر ان دیکھی دنیائوں کا دیدار کراتا ہے۔


اگرچہ وقت کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، بڑے بڑے بادشاہ اس کے ضابطوں کو اپنی ہیبت سے مرعوب نہ کر سکے، ان کی بنائی ہوئی عالیشان عمارتیں باقی ہیں مگر وہ خود وقت کی بھول بھلیوں میں کھو گئے لیکن صرف ایک طاقت ہے جو وقت پر فوقیت رکھتی ہے اسے محبت کہتے ہیں۔ یہ وقت کو روکتی نہیں مگر اپنے تابع کر لیتی ہے۔ صدیاں گزر جاتی ہیں مگر وقت دریا کی لہروں، ہوا کے پروں اور بادلوں کی بوندوں پر محبت کی داستان کے بیج لاد کر دنیا دنیا پہنچاتا رہتا ہے۔ وقت کی رفتار سے تیز چلنے والے ذہن ان بیجوں کی آبیاری کرتے ہیں اور تخلیق کے میدان میں نئی اور منفرد دُنیائوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ محبت کی ایک نظر کئی جہانوں پر حاوی ہے۔ اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ وقت کی زنجیر کھینچ کر اسے تھمنے پر مجبور کر دیتی ہے۔


اِک بار بھی وہ مُڑ کے اگر دیکھتا صدفؔ


میں روک لیتی وقت کو زنجیر کھینچ کر


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین