• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ تر پاکستانی یہ خیال کرتے ہیں کہ جب زرداری حکومت مارچ میں اپنی آئینی مدت پوری کرلے گی اور یہ ہماری تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہو گا تو ملک تازہ انتخابات کی طرف جائے گا اور یہ پلیٹ فارم ایک نئی حکومت کو پاکستان کو درپیش مختلف سیاسی ، دفاعی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا تاہم مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو شک ہے کہ انتخابات کسی نہ کسی بہانے سے معرض ِ التوا میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اس تشویش کا محرک سپریم کورٹ اور زرداری حکومت کے درمیان جاری ”ابدی “ کشمکش بالعموم اور سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو کے درمیان شدید کشمکش بالخصوص ہے۔
زرداری حکومت نے عدالت ِ عظمیٰ کے حکم سے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے سے پیدا ہونے والے ایک بحران کو بڑی کامیابی سے ٹال دیا ہے۔ اس سے پہلے پی پی پی حکومت ایک وزیراعظم کی قربانی دے چکی تھی مگر پھر عین وقت پر قدم پیچھے ہٹایا اوردوسرے وزیراعظم کو بچاتے ہوئے خط لکھ دیا تاہم اس نے بھی کشیدگی کا خاتمہ نہ کیا…اب جج صاحبان کی طرف سے نیا فرمان سامنے آیا ہے کہ زرداری صاحب دو عہدے بیک وقت نہیں رکھ سکتے یعنی اگر وہ صدارت کے عہدے پر رہنا چاہتے ہیں تو پی پی پی کے شریک چیئرمین کے عہدے سے دستبرداری اختیار کر لیں، ورنہ انہیں توہین ِ عدالت کیس میں نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ تو زرداری صاحب کے دو عہدوں سے متعلق پٹیشن پر فیصلہ سنانے کے قریب ہے۔ یہاں ایک اور پٹیشن پر بھی سماعت جاری ہے کہ زرداری صاحب صدارت کے عہدے پر براجمان ہوتے ہوئے بھی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ توہین ِ عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ توقع ہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اصغر خان کیس پر آنے والے تفصیلی فیصلے میں شامل ان چالیس صفحات سے استفادہ کیا جائے گا جو صدر مملکت کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی سرپرستی سے روکتے ہیں۔
زرداری صاحب کے خلاف آنے والے فیصلے اور ان پر اُن کا درعمل کوئی اتنا خوشگوار ماحول پیدا نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کو چپ چاپ نہیں مان لیں گے۔ ان فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کے علاوہ سیاسی طور پر مزاحمت کی جائے گی تاہم جب زیادہ تلخی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوا تو وہ قدم پیچھے ہٹا لیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ انتخابات تک ہمیں تناؤ زدہ ماحول ہی ملے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان انتخابات میں زرداری صاحب نے ہی پارٹی کی قیادت کرنی ہے چنانچہ یہ کام ایوان صدر میں بیٹھ کر نہیں ہو گا۔ ان کے علاوہ کوئی ایسا رہنما دکھائی نہیں دیتا جو پارٹی کی قیادت کر سکے۔ مسٹر بلاول بھٹو ان کا فی الحال متبادل نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک تو وہ اردو سے نابلد ہیں، دوسرے زرداری صاحب اُن کو میدان ِ سیاست کی گرمی سے اُس وقت تک بچانا چاہتے ہیں جب تک وہ اس کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ اس وقت سب سے تشویشناک معاملہ سپریم کورٹ اور جی ایچ کیوکے درمیان تناؤ ہے۔ اس تناؤ کا دامن بلوچستان میں ایف سی کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے معروضات سے لے کر اصغر خان کیس ، جس میں فوج کے اعلیٰ افسران ، جنرل بیگ اور جنرل درانی، برسرِالزام آئے تھے ، تک پھیلا ہوا ہے۔ اب شنید ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بھی اُس اپیل، جس میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل کیانی کی مدت ِ ملازمت میں تین سال کی توسیع غیر آئینی تھی، کے قابل ِ سماعت ہونے پر غور کر رہی ہے۔اگر عدالت یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ یہ درخواست قابل ِ سماعت ہے تو پھر موجودہ آرمی چیف خود کو کسی خوشگوار صورت حال میں نہیں پائیں گے۔ یہ ایک گمبھیر صورت حال ہے کیونکہ اس صورت حال میں فوج جیسے منظم ادارے میں اتھارٹی کو قائم رکھنا چیلنج بن جاتا ہے۔ اگر تاریخ سے کوئی مثال لی جا سکتی ہے تو یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف کو افتخار محمد چوہدری صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ سے خدشہ محسوس ہوا تو جنرل صاحب نے انتہائی قدم اٹھایا۔ سب کو یاد ہے کہ نومبر 2007ء میں سپریم کورٹ جنرل پرویز مشرف کی نااہلی کے بارے میں دائرکردہ ایک پٹیشن کا فیصلہ سنانے والی تھی کہ انہوں نے آرمی چیف ہوتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا، تو جنرل صاحب نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام جج صاحبان کو معزول کر دیا تھا…باقی تاریخ ہے۔
اس حوالے سے ہونے والی سہ جہتی پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ یہ بحران گہرا ہو رہا ہے۔ گزشتہ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور دیگر ضلعی بار ایسوسی ایشنز نے نام لے کر آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہوکر اپنے بھائی کے کاروبار کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کا سامنا کریں۔ چونکہ بار کے ممبران چیف جسٹس آف پاکستان کے پُرجوش حمایتی ہیں، اس لئے تاثر یہ لیا گیا ہے کہ وکلاء ماضی کو بھولے نہیں ہیں۔ اسی دن درخواست دہندہ کرنل (ر) انعام الرحیم ، جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیا تھا، کو نامعلوم حملہ آوروں نے بری طرح زدوکوب کیا۔ اس سے یہ تاثر لیا گیا کہ ”کسی“ کو یہ درخواست دینے کی جسارت پسند نہیںآ ئی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس کو واپس لے لیاجائے۔ جمعرات کو چیف جسٹس صاحب نے تمام سماعتیں منسوخ کرتے ہوئے فل کورٹ اجلاس کے سامنے میڈیا کو بلایا اور سپریم کورٹ کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ اس کو عدالت ِ عظمیٰ کی آزادی کے مخالفوں کی طرف سے سیاسی بیانات قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تناؤ کے عالم میں ضرورت اس امرکی ہے کہ جنرل کیانی کور کمانڈروں کا اجلاس بلائیں اور اس تناؤ میں کمی لانے اور اپنی اور اپنے ادارے کی ساکھ کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات پر غور کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواست کو مسترد کر دیا تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ سماعت کے لئے منظور ہو گئی تو کیا ہوگا؟ یا تو جنرل صاحب کو استعفیٰ دینا پڑے گا یا وہ چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے کے لئے کہیں گے۔ یہ ایک گمبھیر صورت حال ہو گی۔ پس چہ باید کرد اے اہلیان ِ پاکستان؟
تازہ ترین