• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کے ایوان صدر سے دور پنجاب کے دیہات و شہروں میں پی پی کے مائی باپ جناب زرداری کی جلد جلد یاترا آمد بہار اِنتخاب کا پتہ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اختتام پذیر دور میں پارٹی نے بدترین حکمرانی پر شدید ترین تنقید کو کوئی اہمیت نہ دی۔ عوامی مفادات سے منہ موڑے پارٹی کے جیالے حکمرانوں نے دھڑلے سے بدتر انداز حکمرانی جاری رکھا بلکہ ماہ با ماہ اس کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ اس نے برسوں پرانے کنٹرکٹ پر رکھے اور نئی حکومت کے نکالے گئے لاکھوں جیالوں کو ارباہا روپے کے ایئرر دے کر اپنے اقتدار کا آغاز کیا۔ کارکنوں کے لئے اس ”کار خیر“ میں جہاں مختلف شعبوں کے ترقیاتی بجٹ سے کٹوتیاں کی گئیں وہاں ہائر ایجوکیشن تک کو نہ بخشا گیا جس کا براہ راست اثر یونیورسٹیوں کو ایچ ای سی سے ملنے والی ترقیاتی گرانٹس تک پر پڑا۔ وہ جیالے جو اپنا سابقہ دور حکومت ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد کوئی اور ملازمت میں آ گئے، یا انہوں نے کاروبار کر لئے تھے ان کی جیبیں بھی برسوں کے ایئررز سے بھر گئیں۔ موجاں ای موجاں۔ اُدھر ”شہید لیڈر“ کے نام پر جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع ہوا اس میں غریب ترین گھرانوں (ووٹرز) کو 350 ارب روپے ڈور ٹو ڈور تقسیم کرنے کا دعویٰ ہے۔ دعویٰ اس لئے کہ آڈٹ والوں نے اس ”مقدس پروگرام“ میں بھی 50 ارب کا گھپلا پکڑا ہے۔ چونکہ یہ پروگرام بے نظیر کی شہادت میں لپیٹ کر بہت غریب عوام کے لئے لایا گیا، لہٰذا اس کے تقدس پر میاں نواز شریف نے کوئی انگلی اٹھائی نہ اس پر عمران ایسے سیخ پا ہوئے جس طرح انہیں ہونا چاہئے تھا حالانکہ یہ ”غریب مکاؤ“ پروگرام سے زیادہ ”غریب جھکاؤ“ پروگرام تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر ”آٹا باٹو ووٹ بناؤ“ پروگرام۔ لے دے کر پی پی 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کو اصلی حلیے میں لانے کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم سے آئین پاکستان کے مندرجات تو بحال ہو گئے، عملی صورت یہ رہی کہ نیم جمہوری دور کی طرح اس کی دھجیاں اڑتی رہیں۔ پہلے دور میں صدر کی فوجی وردی میں لپٹا آئین تو مفلوج رہا اور پرویز الٰہی صدر کی چمکتی فوجی وردی کو مزید چمکاتے رہے۔ اس جمہوری دور میں آئین شہید لیڈروں کی قبروں کو ٹرائل سے محفوظ رکھنے کے لئے خود بھی دفن رہا۔ 18 ویں ترمیم کا عملاً اطلاق ہوتا تو سابق وزیراعظم عدالتی حکم کے مطابق اپنے انتظامی اقدام سے بددستور وزیراعظم رہتا، لیکن آئینی تقاضے کے برعکس اسے اپنا انتظامی اقدام لینے کا اختیار نہیں تھا۔ اس کے مقابل وہ پارٹی فیصلے کا پابند تھا، جو اصل میں پارٹی دیوتا نے کیا۔ جس طرح مشرف دور میں پرویز الٰہی صدر کی چمکدار وردی کی چمک کو اپنے چکا چوند اقتدار کی طاقت سمجھتے رہے تھے۔ اسی طرح بدقسمت پاکستانی قوم کا پیر سائیں، عدلیہ کے مقابلے میں اپنے پیر کی وفا پر قائم رہا۔ وہ عوام کے اعتماد پر تو پورا نہ اتراء پارٹی دیوتا نے آزمایا تو اقتدار قربان کر کے گوشاں نشیں ہو گیا۔ پہلے تو قربان وزیراعظم نے دیوتا کی محبت میں اس کی قربت میں ہی ہجرہ شاہ مقیم بنایا، دیوتا کی آنکھوں سے پیار محبت غائب ہونے لگا تو وہ خود بھی غائب ہو گئے۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے لیکن خیر سے نہیں، ایوان صدر سے اقتدار لٹا کر جو فقط سوٹوں کی چمک کے زور پر کیا اور عوامی اداروں کے بجٹ کو سونگھ سونگھ اور لوٹ لوٹ کر گزار دیا۔ اب احتساب کی ایسی لہر آئی کہ چمکدار وردیاں بھی گیلی ہو گئیں تو ایف آئی اے نے ایک ”محبت نامہ“ ملتان شریف بھی بھیج دیا جس پر پیر زادہ سیخ پا ہوا اور وہ بھی پارلیمنٹ میں کہ ہمارا بھی احتساب ؟FIA ہمارے ابا حضور کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اُدھر آمد بہار انتخاب ہے تو تن کی دنیا میں جکڑا دیوتا بھی مسکراتا ہوا باہر نکل آیا ہے۔ اس نے پنجاب کے من کو منانے کی ٹھانی ہے۔ جہاں گھر گھر دیے گل رہے، اور پیر سائیں کے سوٹوں کی چمک فقط پیر اور اس کے دو عدد پیر زادوں کو ہی اندھیروں سے محفوظ رکھ سکی۔ پیر ملتانی سائیں نے جسے اندھیرے پھیلانے پر لگایا تھا، وہ آج اقتدار کی چکا چوند میں مسکراتا نظر آتا ہے اور پی پی سمجھتی ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی کمی اور انتخاب تک اس کا قرض ادھار پر خاتمہ، عوام خصوصاً پنجابیوں کو سب کچھ بھلا دے گا پھر دیوتا کی مسکراہٹوں اور مظلوم شہزادہ بلاول کی ”شہید ماں“ کے لئے آہ و بکا قوم سے پنج سالہ ”زیادتی“ کا کفارہ ثابت ہو گی۔ جس میں دیوتا، پیر، پیرزادے، شہزادے، جیالے، ہم نوالے و پیالے، خواہ کراچی کے ہوں پنجاب یا پشاور کے سب کے سب پوتر ہو جائیں گے۔ سونے پہ سہاگہ یہ گمان کہ منظور وٹو پنجاب کے بڑے بڑے سیاسی جگادریوں کو ایسا ایسا پٹو پڑھائیں گے کہ پنجاب کی سب ناراضگیاں ختم ہو جائیں گی، جیسے وٹو کو پنجاب کا سرپنچ بنانے پر بڑے بڑے جیالے بالآخر اپنی ناراضگیاں ختم کر بیٹھے۔ ملتانی سائیں کی آخری سیاسی امید تو سرائیکی صوبہ ہے۔ پی پی دیوتا نے محبت بھری ملتان یاترا پر سائیں گیلانی کو یہ کہہ کر مایوس کیا کہ ”فی الحال تو مطلوبہ اکثریت نہیں“ لیکن یہ گولی بھی دے گئے کہ ”الیکشن سے پہلے مجوزہ صوبے کے حوالے سے پیش رفت ہو گی“ شاید دیوتا کو پنجاب کے لئے اپنی محبت بھری نئی انگڑائی اور منظور وٹو کی سیاسی جگاوریوں سے جادو بھری ملاقاتوں پر یقین پکا لگتا ہے۔ ویسے بابو نما بابا وٹو کا اتنا جادو تو چل گیا ہے کہ گجراتی چودھری بھی پی پی کی چھتری تلے آمد سرما پر وٹو صاحب کی سرگرمی سے ایسے ہی دم بخود ہو گئے، جیسے پی پی کے بڑے بڑے چاچے مامے، جو 70ء سے بھٹو کی مالا جپ رہے ہیں۔ اب دیوتا کی اشیر باد ہے، یکسوئی اور جادوگر وٹو کی مسکراہٹیں اور معانقے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خالی مولی تھیلوں میں پی پی دیوتا اور منظور وٹو جو پیار محبت، روا داری اور مسکراہٹیں اہل پنجاب کے لئے ضلع ضلع باٹنے پر لگے ہیں، قلعہ لاہور کے باسی میاں نواز شریف اور عمران خاں کے پاس اس کا کیا توڑ ہے؟ وہ خود روایتی سیاست کا کھیل کھیلتے ہوئے بھی کسی جوڑ توڑ پر آمادہ نہیں، اور دونوں مائل با انقلاب ہیں۔ ایک حبیب جالب والی صبح نور سے اور دوسرا ”یوتھ سونامی“ کے ذریعے پی پی اور ایک دوسرے کو اٹھا کر پنجاب نکالا دینے پر یقین کئے ہوئے ہیں۔ پی پی دیوتا کو یہ یقین کہ وہ محبت سے فاتح عالم نہیں تو فاتح پنجاب ضرور بنے گا۔ یوں ایک جانب پنجاب کے سیاسی پہلوانوں کا روایتی سیاست کے دائروں میں رہتے ہوئے اپنے اپنے انقلاب کا یقین محکم تو دوسری جانب پی پی دیوتا کا محبت کے زور پر فاتح پنجاب بننے کا مشن، بہار انتخاب (1213) کے ابتدائی رنگ ہیں۔ ابھی تو رنگوں سے رنگ نکلیں گیگویا آنے والا الیکشن بھی رنگ بازوں کی رنگ بازی میں رنگا ہو گا۔ کسی کے پاس سیاست کا کوئی اور ڈھنگ ہے تو وہ سامنے لائے۔ ہے ہی نہیں ابھی تک تو کوئی سامنے آیا نہیں جو ہیں ان کے پاس کوئی اور ڈھنگ نہیں۔ سر دست تو قومی سیاست پی پی دیوتا اور قلعہ لاہور کے ان دو بڑے پہلوانوں میں ہی رنگی ہوئی ہے، باقی رہے الطاف بھیا، گجراتی چودھری اور باچا خاں کے خدائی خدمت گار، سب پی پی دیوتا کے سیاسی براتی ہیں۔ (سیاسی علماء نے بھی اپنی دکان لگا لی ہے، کچھ نہ کچھ کھٹ ہی لیں گے) اپنی بدترین معاشی اور انتظامی ناکامی کے بعد آصف زرداری کی یہ ہی بڑی سیاسی کامیابی ہے، جس نے انہیں اقتدار کی لیلیٰ اقتدار کا ایک پُر اعتماد امیدوار بنا دیا ہے۔ روایتی دائروں اور اسیر انقلابی اور پی پی دیوتا کا فرق یہ ہے کہ دیوتا کی نظریں لیلیٰ پر جمی ہیں اور وہ اسے ہی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ٹارگٹ انقلابیوں کا بھی یہ ہی ہے لیکن ان کے دعوے اور شاید کوشش بھی انقلاب برپا کرنے کا ہے، جو انہیں نہیں کرنا آتا۔ نہ وہ شاید انقلابی ہیں تو لیلیٰ لے گا وہ ہی جو چٹے بٹے کے کھیل کا ماہر ہے یا پھر سمجھو کہ صبح نور کس فضا میں طلوع ہوتی ہے؟ اور پرانا منظر ختم کر کے تبدیلی برپا کرنے والا سونامی کن حالات میں آتا ہے؟ سمجھو تو کر کے بھی دکھاؤ لیکن اب تو وقت بہت تھوڑا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
تازہ ترین