• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں حکومت کی طرف سے 12اگست سے 14اگست کے درمیان قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری صدر مملکت کو بھیجی جاچکی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 15اگست کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی آزمائش کا وہ دور شروع ہو جائے گا جس میں اسے معاشی مشکلات، مسائل کے انبار، بین الاقوامی پیچیدگیوں اور مضبوط اپوزیشن کا سامنا تو ہوگا ہی مگر نئی قیادت سے عوامی سطح پر جو توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں وہ بجائے خود اس کیلئے بڑا چیلنج ہوں گی۔ اگرچہ عوامی سطح پر اس بات کا ادراک موجود ہے کہ ملک کو جتنے مشکل حالات کا سامنا ہے ان سے نکلنے کیلئے نئی حکومت کو اتنے ہی مشکل فیصلے کرنا ہونگے مگر یہ خواہش بھی موجود ہے کہ کہ ابتدائی دنوں میں ہی کوئی مثبت پیش رفت سامنے آنی چاہئے۔ ممتاز امریکی اخبار کے تجزیے کے مطابق ملک کا موجودہ تجارتی خسارہ 18ارب ڈالر سے تجاویز کرچکا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر بمشکل دو ماہ چل سکیں گے۔ پاکستانی روپیہ سخت دبائو کا شکار ہے۔ جبکہ محصولات کی وصولی کی کیفیت یہ ہے کہ پچھلے برس 20کروڑ آبادی والے ملک میں دس لاکھ سے بھی کم افراد نے ٹیکس ادا کیا۔ نئی منتخب حکومت کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پچھلے تین مہینوں کے دوران پاکستان کو دو ارب ڈالر ماہانہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا رہا ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد سے امریکن تھنک ٹینک ’’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘‘ سے خطاب میں انکے بیان کی تصدیق اسی تھنک ٹینک سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور مسلم لیگ (ن) کے طارق فاطمی کی گفتگو سے بھی ہوئی جن کے مطابق پاکستان ایک بڑے بلکہ ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ متوقع وزیر خزانہ جب چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے تمام دستیاب امکانات بروئے کار لانے کی بات کرتے ہیں تو ان امکانات میں دو طرفہ تعلقات سے لیکر کثیر قومی اداروں سے تعاون حاصل کرنے سمیت کئی جہتیں آ جاتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف پاکستان میں چینی اعانت سے جاری منصوبے اور بیجنگ کو واجب الادا قرضے ہیں تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومیبو کا تو یہ بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ ائی ایم ایف کے ڈالر، جو امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے ہیں، چینی کمپنیوں کے واجبات یا چینی قرضوں کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو دینے کا کوئی جواز نہیں۔اس باب میں پاکستان کا موقف یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا چینی قرضوں کی ادائیگی سے تعلق نہیں۔ وہ الگ معاملہ ہے۔ چین نے جو خود بھی آئی ایم ایف کو بھاری فنڈ دینے والے ملکوں میں شامل ہے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے فوائد حاصل کرنے میں تامل نہ کرے۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا بیان محض پاکستان پر دبائو ڈالنے کا ذریعہ تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ایرانی صدر حسن روحانی کا ٹیلیفون آنے کے بعد قائم مقام امریکی سفیر جان ہوور کی قیادت میں سفارتی وفد کی بنی گالہ آمد مثبت قیاس آرائیوں کا ذریعہ بنی ہے۔ اس ملک کو جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں مختصر مدت کے اقدامات کو فوری اہمیت حاصل ہوگی۔ سرکاری سطح پر اخراجات گھٹانے، براہ راست ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے، عوامی بچت میں اضافہ کرنے،سکوک بانڈز جاری کرنے، اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستان کو قرض دینے پر آمادہ کرنے سمیت ایسی سرمایہ کاری راغب کرنے کی ضرورت ہے جس کے فوری نتائج پیداوار اور روزگار بڑھانے کی صورت میں ظاہر ہوں۔ پچھلے عشروں کے دوران ہم نے کئی ملکوں کو مشکل حالات سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر قدم بڑھاتے دیکھا ہے۔ قوموں کو گرداب سے نکالنے میں سب سے بڑا کردار قیادت کے اخلاص اور پختہ عزم کا ہوتا ہے۔ نئی قیادت اپنے عزم میں پختہ رہی تو مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود نت نئے راستے نکلتے رہیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ حکومت کے انداز فکر اور عملی اقدامات میں عوام کی حالت بدلنے کا ٹھوس ارادہ اور مخلصانہ کوشش نظر بھی آئے۔

تازہ ترین