• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں انفارمیشن سروسز اکیڈیمی کے زیر اہتمام’’ میڈیا مشکلات اور ابلاغی بحران‘‘ کے موضوع پر دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جعلی خبروں، تصاویر اور افواہوں کو ذمہ داری سے روکنا ہوگا۔ ایسی پوسٹ کی حقیقت جاننے کیلئے سرچ انجن پر ریوریس سرچ کی مدد لی جاسکتی ہے۔ کانفرنس میں برطانوی ادارے کے سوشل میڈیا ایڈیٹر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر سیاسی، کاروباری اور دیگر مفادات کے لئےدانستہ طور پر جعلی تصاویر، ویڈیوز اور خبریں شائع ہورہی ہیں۔ یہ کام معروف سیاستدان اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے بھی کررہے ہیں جس سے عوام گمراہ اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوتاہے۔ اس حقیقت کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے میں بنیادی و مرکزی کردار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سوشل میڈیا کا ہے۔ اس کے فوائد بھی بےشمار ہیں کہ چند لمحوں میں آپ دنیا کے کسی بھی علم کی مبادیات، ارتقا اور جدید ترین تحقیق تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پہلے جہاں کسی موضوع پر معلومات کے لئے ہزاروں کتابیں پڑھنا پڑتی تھیں اب یہ کام ایک بٹن دبا کر آپ کرسکتے ہیں، المیہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے جو تیسری دنیا میں سب سے زیادہ بتایا جاتا ہے۔ حالیہ پاکستانی انتخابات کو ہی دیکھ لیں اس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں دینی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا۔علاوہ ازیں مذہب کے بارے میں غیر مصدقہ اور باعث نزاع بننے والا مواد نوجوان کو گمراہی کی طرف لے جارہا ہے۔ پاکستان کے معزز اداروں کے بارے میں بھی زہر فشانی سے لوگوں میں ان اداروں کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ملک دشمن عناصر کے ایماء پر ہی کی جاسکتی ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں اقدامات مزید سخت کرنا ہوںگے۔ ایسے فلٹر استعمال کرنا ہوں گے کہ کوئی بھی غیر مصدقہ خبر یا تصویر عوام تک نہ پہنچے۔یاد رہے کہ بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے بھیانک واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔ حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ سماج میں نفرتیں جنم نہ لیں اور سوشل میڈیا کا محض تعمیری استعمال ہی ممکن ہو۔

تازہ ترین