• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھتاوے

خطا کے پتلے انسان اور پچھتاوے کا بہت گہرا رشتہ ہے، مگر اس کے باوجود ہر کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلینا چاہئے تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے کہ پچھتاوا ہلکی آنچ ہے جس پر دل دماغ پکتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو بہت کام کرنا ہے، بہت سے فیصلے لینے ہیں، کئی مانے ہوئے روٹھیں گے کئی روٹھے مان جائیںگے، اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، تاکہ پچھتاوئوں کی تعداد کم سے کم رہے۔ اصل چیز نیت ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو کمزورنمازسے بھی کام چل جاتا ہے، فوکس ریاست مدینہ پر رکھنا ہوگا، مگر اپوزیشن کو بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھنا ہوگا، اگر وہ دیکھے کہ ضمیر کی رائے ہے کام ٹھیک ہے تو اپوزیشن برائے اپوزیشن نہ کرے، عمران کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کے لئے ان کے سامنے کفار مکہ نہیں مسلمانان پاکستان ہیں اور کوئی مسلمان کتنا بھی گیا گزرا ہو وہ ایسی آئیڈئل ریاست کھڑی ہونے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ یہ نہیں کہ تبدیلی کا مکمل انکار کردیا جائے، کچھ ایسے کام بھی ہوچکے ہیں جن کا ہونا 70برسوں میں ممکن نہ تھا۔ ہم اس تفصیل میں نہیں جاتے، البتہ حلف اٹھانے کے بعد جب موصوف ایک اسلامی فلاحی ریاست کی بنیادیں اٹھائیں گے تب’’انہیں‘‘ پہلی اینٹ سیدھی رکھنا ہوگی، جو ریاست مدینہ 15سوسال پہلے وجود میں آئی تھی ایک دم وجود میں نہیں آئی تھی، گرم ہوا ٹھنڈا جھونکا تو ابتداء ہی میں بن گئی تھی، لیکن پورا موسم نہیں بدلا تھا، اب ہمیں نے اچھائی پر تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہوگا اور اگر معاملہ برعکس نکلا اور دیوار پر لکھا نظرآگیا کہ ریاست مدینہ فقط ایک’’ایمان افروز نعرہ‘‘ تھا، جو ایمان ہی کو کھاگیا پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تک ہی اپوزیشن کو محدود رہنا چاہئے تاکہ ریاست محفوظ رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نیت اچھی ہو مگر کامیاب نہ ہوسکے، الغرض کامیاب بنانے کے لئے منفی کردار ادا نہ کیا جائے، تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ ہمیں ریاست مدینہ بنانے نہیں دی گئ۔


٭٭ ٭ ٭ ٭


موروثیت


ہماری میراث تو علم، تقویٰ، انصاف، مساوات، حسن گفتار و حسن اخلاق مگر آج اس کی جگہ موروثیت نے لے لی، جس سے مراد غالب کے غلبے کو برقرار رکھنا ہے ۔ ہم یہاں اسلام کا نام نہیں لیتے مگر اتنا بتادیں کہ انسانیت و اسلام میں کوئی فرق بھی نہیں آپ صدق دل سے دونوں میں سے کسی ایک سے بھی اپنا کوئی اچھا کام چلا سکتے ہیں، کیونکہ اسلام نے کسی غیر انسانی عمل کو جائز قرار نہیں دیا، جیسے سکے کوگردش میں رکھنے سے معاشی انصاف برقرار رہتا ہے اسی طرح حیثیت کو بھی گردش میں لانا چاہئے تاکہ عظمتیں بٹتی رہیں اور کوئی اقلیم فرعونیت میں غلطی سے نہ چلا جائے۔ طاقتور ہونے کا دعویٰ کمزوری کی علامت ہے اور اس مرض کا علاجمحبتہے، قانون وراثت کا مقصد یہ ہے کہ جائیداد تقسیم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ جائے، قرآنی فکر یہ ہے کہ ’’سکے کو گردش میں لائو کہیں یہ تمہاری اشرافیہ ہی میں رک کر نہ رہ جائے‘‘۔اشرافیہ امیر ترین اقلیت کو کہتے ہیں جس کے ارد گرد مفلسی و محرومی کی کثرت گل سڑ رہی ہوتی ہے، اس طرح ایک انسانی معاشرہ کبھی قائم نہیں ہوتا یاد رہے زور و زر ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے مگر اسی پر قبضہ اشرافیہ کا، اشرافیہ کی جگہ اگر اشراف(باکردار افراد) لے لیں تو شرافت حکمران ہوجاتی ہے، جو عدل کو جنم دیتی ہے۔ اس زمین کو سارے انسان ملک کر کھائیں، اور ضرورت بھر کھائیں ، ضرورت سے زائد کو انسانوں میں تقسیم کردیں۔ یہی موروثیت کی نفی ہے۔ موروثیت کسی بھی اچھی چیز کا ایک جگہ ٹھہر جانا ہے، یہی ٹھہرائو تازہ کھانے کو باسی بنادیتا ہے، آرام، سکون، اطمینان اور خوشی کا راز قناعت میں ہے ہوس میں نہیں۔ دولت مند ہونا ممنوع نہیں مگر استعمال و ضرورت سے زائد کو گردش میں لانا چاہئے اسی کو قناعت کہتے ہیں جس سے تجاوز خوشی کاگراف گرادیتا ہے۔


٭٭ ٭ ٭ ٭


قانون اندھا نہیں ہوتا


ایک اصطلاح سی بن گئی ہے اور زبان زد عام ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے، جبکہ قانون جیسا بینا کوئی نہیں ہوتا، اگر اس کی آنکھیں ہی نہیں تو یہ جبر و ظلم ہے یا اس کا تحفظ مگر قانون نہیں۔ ہم ساری دنیا کی بات نہیں کرتے مگر اپنے ملک میں 70برس سے قانون رائج ہے اور اس کے نیچے جرم نے جتنی افزائش پائی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ دولت والا جرم کرتا ہے اس اطمینان کے ساتھ کہ کوئی اچھا سا وکیل کرلوں گا اور چھوٹ جائوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے جو قانون بنایا اس میں یہ گنجائش رکھی کہ اگر ایک مخصوص طبقے سے جرم ہوجائے تو بچ سکے اور ایک عام انسان سے جرم نہ بھی سرزد ہو تو وہ اس کی زد میں آسکے یا لایا جاسکے۔ کیا اسےہم قانون کہہ سکتے ہیں اور اگر یہی ہمارا قانون کہلاتا ہے تو واقعی قانون اندھا ہوتا ہے۔ اندھا ہونا کوئی فضلیت نہیں، اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ پاگل کا فیصلہ غلط ہوتا ہے۔ ہاں ہمارے قانونی ڈھانچے میں اچھے قوانین بھی ہیں مگر زیادہ تر یہ غیر قانونی ہوتے ہیں، مگر ہم انہیں اندھا قرار دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔یہ کیوں نہیں کہتے کہ قانون دانا و بینا ہوتا ہے اور جانچ پرکھ کر دیکھ کر فیصلہ دیتا ہے، آخر میں ہم یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے قانونی ا سٹرکچر کو ری ا سٹرکچر کرنا ہوگا، کہ ایک طویل عرصہ ہم قدیم ترین انصاف پر مبنی قانونی ڈھانچہ تشکیل نہ دے سکے اگر ایک اچھا قانونی ضابطہ ہو اور گڈ گورننس تو معاشرہ آئیڈیل بن سکتا ہے ، نہ ہو تو قانون نافذ نہیں ہوتا اور جرم کم نہیں ہوتا طاقتور کوہی فائدہ ہوتا ہے۔


٭٭ ٭ ٭ ٭


ہزاروں خواہشیں ایسی


٭...مولانا فضل الرحمان نے صدر بننے کی خواہش ظاہر کردی۔


خواہش کرنے میں کیا حرج ہے؟


٭...روحانی پیشوا دلائی لامہ، جناح وزیر اعظم ہوتے تو ہندوستان نہ ٹوٹتا۔


ہندوستان ٹوٹا نہیں ہندوستان باقی نہیں رہا۔


٭...راشدہ طالب کی پہلی مسلم امریکن رکن کانگریس کی راہ ہموار۔


راہیں ہموار ہیں ہم چلتے نہیں۔


٭...لاہور ہائیکورٹ عمران کو وزیر اعظم بننے سے پہلے پروٹوکول دینے پر وفاقی حکومت سے جواب طلب۔


حالانکہ عمران نے پروٹوکول طلب نہیں کیا۔


٭...چار یورپی ممالک میں مسلم خواتین کے نقاب، برقعہ پر پابندی۔


پابندی اٹھانے کے لئے پابندی لگائی بس وہ دلیل و جواز چاہتے ہیں جو فراہم کردینا چاہئے۔


٭...برقعہ پر تنقید، برطانوی وزیر اعظم کابورس جانسن سے معافی کا مطالبہ۔


یہ خبر مذکورہ بالا خبر کی مذمت ہے۔


٭...اگر سیاست، خدمت نہیں تو کوئی کاروبار کرلینا چاہئے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین