• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے پچھلے کالم میں مختصر ہی صحیح مگر اس بات کا ذکر کیا تھا کہ عمران خان نے انتخابات میں غیر متوقع طور پر وسیع کامیابی کے بعد جو پالیسی بیان جاری کیا اسے سندھ کے عوام نے بہت سراہا ہے۔ سندھ کے عوام نے خاص طور پر عمران خان کے اس اعلان کو بہت پسندکیا کہ ان کی ترجیحات میںیہ بات شامل ہے کہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ملک بھر میں سندھ کے لوگ ’’کرپشن‘‘ کے سب سے زیادہ زخم خوردہ ہیں۔ سندھ کے عوام کرپشن کے عذاب سے تنگ آ چکے ہیں لہٰذا سندھ کے عوام توقع کر رہے ہیں کہ عمران خان سب سے پہلے اپنی پالیسی بیان کے مطابق کرپشن کے خلاف سخت ترین اقدامات کریں گے۔ اس مرحلے پر میں عمران خان صاحب کو یاد دلائوں گا کہ انتخابات سے پہلے امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے پاس اپنی املاک اور دولت کے جو گوشوارے داخل کئے ان کے مطابق امیدواروں کی بڑی تعداد لکھ پتی، کروڑ پتی، ارب پتی حتیّٰ کہ کھرب پتی ہے۔ نہ فقط سندھ بلکہ سارے ملک کے عوام عمران خان سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وزیراعظم کا حلف لیتے ہی عمران خان اعلیٰ عدلیہ کے کسی قابل احترام سینئر جج کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بنائیں گے جو ان ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی طرح سے اتنی دولت اکٹھا کرنے کی تحقیقات کرے گا اور جن کی دولت میں چوری، ڈکیتی اور کرپشن کا مال نظر آئے ان کو جیلوں میں بند کر کے ان کی دولت ان سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جائے۔ مگر اس مرحلے پر کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم ہونے کے بعد سب سے پہلے عمران خان اپنی دولت کے گوشوارے تحقیقات کیلئے پیش کریں ۔ میرے خیال میں اگر عمران خان ایسا کرتے ہیں تو ملک بھر کے عوام میں ان کی عزت بہت بڑھ جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی وجہ سے اس کے بعد جو احتساب ہو گا اس پر ساری قوم کو نہ فقط اعتماد ہو گا بلکہ قوم کو اس نوعیت کے احتساب سے بڑی توقعات بھی ہو جائیں گی۔ عمران خان نے اپنے اس پالیسی بیان کے ذریعے ایک یہ بھی اہم اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت غربت کے خاتمے اور خاص طور پر مزدوروں کی حالت سدھارنے کیلئے بھی اہم اقدامات کرے گی۔ اس اعلان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ اس سلسلے میں میری تجویز ہے کہ مزدور اصلاحات کی جائیں۔ علاوہ ازیں وقت آ گیا ہے کہ گزشتہ 70سالوں کے دوران سرمایہ داری اور جاگیرداری کو تقویت دینے کیلئے جومسلسل اقدامات کئے گئے ان کے نتیجے میں ملک بھر میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فر ق کو کم کیا جائے۔ اس ضمن میںضروری ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کیلئےگھر بنائے جائیں اور ان کی اولاد کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دوسری بات یہ کہ زرعی سرمایہ داروں اور صنعتی سرمایہ داروں کی حد ملکیت مقرر کی جائے۔ اس کے علاوہ اب یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر جانے کیلئے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کیلئے رکاوٹیں قائم کی جائیں۔ اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ ایک حد ملکیت مقرر کی جائے جس سے اوپر والوں اور نیچے والوں کیلئے پارلیمنٹ میں پچاس، پچاس فیصد سیٹیں مختص کی جائیں۔ یہ اقدامات اس نقطۂ نگاہ سے بھی ناگزیر ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بات کی طرف توجّہ دی جائے کہ گزشتہ 70سال سے جمہوریت جاگیردارطبقوں کی ’’لونڈی‘‘ بنی ہوئی ہے۔ یہ جو ملک ترقی نہیں کر رہا اور دن بہ دن ہم غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں تو ضروری ہے کہ میں نے اوپر طبقاتی فرق ختم کرنے کیلئے جو تجاویز دیںان پر عمل کر کے طبقاتی معاشرے کو بتدریج ختم کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں ان اقدامات کے ذریعے ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت لائی جائے جس کا وعدہ قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ اس مرحلے پر میں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ لاہور میں ہندوستان بھر سے آئے ہوئے تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے قائداعظم کی صدارت میں ہونے والے اس وسیع عوامی اجلاس میں جو قرارداد منظور کی تھی اور جسے ’’قرارداد لاہور‘‘ کہا جاتا ہے، میں ٹھوس الفاظ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونے والی ریاستیں (صوبے) مکمل طور پر Autonomous خودمختار ہوں گے مگر کیا ایسا ہوا؟ ایسا ہونے کے بجائے یا تو ون یونٹ بنتے رہے یا مارشل لا آتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1973میں پہلی بار آئین بنا جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں وفاقی نظام ہو گا مگر کیا واقعی ایسا ہوا؟ 18ویںآئینی ترمیم کے بعد چھوٹے صوبوں میں کسی حد تک اطمینان پیدا ہواتھا مگر نواز شریف حکومت نےاس ترمیم پر کس حد تک عمل کیا؟ اور تو اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ایک بار بھی صوبوں کیلئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا؟ کیا آج تک مرکز میں قائم ہونے والے خودمختار اداروں اور مرکزی اداروں میں صوبوں کی ملازمتوں میں ان کا حق دیا گیا؟ وقت آ گیا ہے کہ اس بات کی طرف بھی توجّہ دی جائے اور اگر عمران خان اپنے اعلان سے سچّے ہیں تو کم سےکم پاکستان کو حقیقی وفاقی نظام میں تبدیل کریں تاکہ چھوٹے صوبوں کے عوام مطمئن ہو سکیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چھوٹے صوبے کے پی کے عوام کے اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی وہاں حکومت کرتی رہی ہے۔ جبکہ عمران کا اپنا تعلق بڑے صوبے سے ہے۔ اب دیکھیں عمران خالی چھوٹے صوبے کا حق ادا کرتے ہیں یا بدستور بڑے صوبے کی ڈسپلن میں رہتے ہیں۔ میں نے اس کالم میں عمران خان سے سندھ کی توقعات کا ذکر کیا ہے۔ اب میں سندھ کے عوام کے اندیشوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ سندھ کے عوام کو مذکورہ توقعات کے ساتھ کچھ اندیشے بھی ہیں پہلی بات کہ عمران خان کا تعلق بھی نواز شریف کی طرح بڑے صوبے سے ہےتاہم اس کے باوجود عمران خان کے اب تک کے کردار کی وجہ سے سندھ کے عوام کو عمران سے اندیشے اتنے نہیں تھے جتنی ان سے توقعات تھیں۔ مگر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتے ہی کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ عمران خان سے سندھ کے عوام کی توقعات کم ہونے لگیں اور اندیشے بڑھنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی نے ایم کیوایم سے چھ نکاتی معاملہ کیا۔ اس معاہدے کی شقیں اتنی واضح ہیں کہ ان کے مضمون سے سندھ کے عوام کو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں اورساتھ ہی دونوں تنظیموں کے رہنمائوں کے کچھ ایسے کھلم کھلا اور مبہم بیان سامنے آئے جس کے بعدسندھ کے عوام کو اندیشہ ہےکہ شاید ایک بارپھر سندھ کو نسلی عناد کا نشانہ تو نہیں بنایا جا رہا ہے۔ سندھ کے لوگ امید کر رہے ہیں کہ عمران خان اس سلسلے میں ضروری وضاحت کریں گے۔ ساتھ ہی سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم سے بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنا کردار تبدیل کرے گی کیونکہ سندھ ان کا بھی صوبہ ہے اور پرامن سندھ ان کی بھی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی سندھ کے سیاسی حلقوں سے بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلدبازی میں کوئی غیر معقول ردعمل ظاہر کرنے سے پرہیز کریں گے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین