• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکیوں کو اس بات میں بڑا مزا آتا ہے اور اس کو سن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ، جب ہم یہ کہیں کہ امریکہ کا یہ جنگی جنون جو ان پر آج طاری ہے امریکہ کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کرے گا۔ اس سے ان کے دلوں کو تسکین پہنچتی ہے کہ دنیا کی تباہی کا خوف دراصل ان کی بالادستی کی علامت ہے اور اس خوف کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک امریکہ سے دب کر رہیں گے۔ اگرچہ ان کو افغانستان سے دم دبا کر بھگایاگیا اور ویتنام سے نکلنا یاد نہیں رہتا۔ وہ ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی مانند ہیں کہ جب وہ ہارا ہوا کھلاڑی اپنی خفت مٹانے کے لئے بلا زمین پر مارتا ہے یا دباؤ سے نکلنے کے لئے گیند کو دیوار پر مار کر پکڑنے کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ اگرچہ 1961ء میں آئزن ہاور نے صدارتی محل چھوڑتے ہوئے ملٹری انڈسٹری کے بڑھتے ہوئے اثر اور طاقت کے بارے میں کہا تھا کہ ہمیں ایک متوازن معاشرہ کو تشکیل دینا چاہئے نہ کہ ملٹری طاقت کو۔ ملٹری طاقت کے ساتھ معاشرے کے دوسرے شعبوں کو بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ صرف ملٹری طاقت کے بڑھنے سے ہماری خارجہ پالیسی بند گلی میں آ کھڑی ہوگی اور ملٹری طاقت کے حصول میں پرائیویٹ سیکٹر کے گھس آنے سے معاشی بدحالی شروع ہوجائے گی۔ جنگ کی تباہی کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ قوم کی تاریخ سے لگّا نہیں کھا سکے گا۔ اُن کے مطابق جنگ اور صرف جنگ کی تیاریاں قومی زندگی کا زیادہ حصہ خراب کر ڈالے گا اور ہماری روحانی صحت کو خطرے میں ڈال دے گا۔ امریکی قوم نے آئزن ہاور کی بات نہیں مانی اور پچھلے سال امریکی قوم نے 700 بلین ڈالرز دفاع پر خرچ کر ڈالے۔ یہ دُنیا کے تمام ممالک کے ملٹری اخراجات کا آدھا ہے۔ قومی نمو میں اس کا حصہ 5 فیصد رہ گیاجو 1953ء میں 14 فیصد تھا۔ امریکہ کے پاس ایٹمی اور اسلحہ کی فیکٹریاں ہیں مگر وہ روزگار فراہم نہیں کر پا رہی ہیں اور نہ ہی معیشت کو پروان چڑھا سکی ہیں۔ اسی لئے کانگریس اب ڈیفنس بجٹ میں کٹوتی میں لگی ہوئی ہے۔ خارجہ پالیسی کا اصل مقصد صرف دُنیا پر اپنی طاقت کا سکّہ جمانے تک محدود ہوگئی اور بند گلی میں پھنس گئی ہے۔ قوموں کو ڈرانا دھمکانا اور اُن پر حملہ کرنا اس کا مقصد بن کر رہ گیا ہے جو صرف انسانیت سوز ہے بلکہ امریکہ کے دشمنوں کو بڑھا رہا ہے اور اُس کو تنہا کررہا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے مفاد پرست عناصر امریکہ کو اس گھیرے سے نکلنے نہیں دیتے۔ وہ اپنے مفاد میں عراق پر حملے کا جواز دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے تیل سستا ہوگیا ہے اور لیبیا کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں تیل کے سرقہ سے مغرب مستفیض ہورہا ہے مگر کیا یہی قوموں کا مقصد ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم اخلاق کی اس گراوٹ پر آجائے اور ایک عالمی بدمعاش کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرے تو انجام بھی بڑا دردناک ہوتا ہے۔ وہ ہر معاملے کا ملٹری حل تلاش کرتے ہیں جو امریکہ کے لئے سم قاتل ہے۔ آئزن ہاور نے روحانی اثر کا ذکر کیا جو اس بدمعاش ملک کے تصور سے زیادہ اہم ہے۔ امریکی تہذیب تک میں ملٹری گھس آئی ہے۔ جنگ کی ہر وقت تیاری میں لگے رہنے کا نتیجہ نہ صرف امریکہ کی تباہی بلکہ تمام عالم کی تباہی پر جا کر منتج ہوگا۔ اب اگر آپ کوئی فلم دیکھ لیں آپ کو تباہی اور مار دھاڑ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور آخر میں امریکہ کے جاسوس اور بدمعاش تک کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ امریکن ہو۔ ویڈیو گیمز کی دنیا بھی امریکی تباہیوں سے بھری ہوئی ہے اور جیت کسی امریکی ہی کی ہونی چاہئے وہ چین پہنچا ہوا ہو یا چاند پر۔ 9/11 کے بعد تو امریکی معاشرے میں باقاعدہ فوجی تربیت اور بہت سارے ملٹری گروپ بن گئے ہیں جو دشمن کو مارنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس وقت دشمن مسلمان ہیں تو مسلمان کو مارا جارہا ہے۔ چینی بھی امریکیوں کی دشمنی کا حصہ ہیں وہ اس قدر بدگمانی و خوفزدگی کے عالم میں ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ روسیوں کی سب میرین نیویارک کی سمندری حدود میں حملہ کرنے کے لئے سمندر کی تہ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ملٹری عوام میں اثر بڑھانے اور اپنے بارے میں تاثر بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ اچھے اور فلاحی کام کرتی نظر آتی ہے جبکہ امریکی فوجی اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے۔
اوبامہ انتظامیہ نے کچھ دفاعی بجٹ کی کٹوتی کی تھی مگر اس کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس لئے کہ ملٹری اداروں اور ملٹری انڈسٹری کی لابی کا اتنا اثرورسوخ ہے کہ وہ دفاعی بجٹ کم ہونے نہیں دیتی اور اسی وجہ سے دونوں صدارتی امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران دفاع کو مضبوط کرنے کا عزم کیا۔ کسی ملٹری اکیڈمی کا نوجوان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی قوم کسی بھی وقت حالت جنگ سے باہر آئی ہوئی ہو اور ہر وقت اپنے آپ کو ناقابل تسخیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ اپنے قرضوں کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی اپنی معاشی بدحالی کو اور نہ ہی اپنی حالت سے نجات حاصل کرتے جو ہر وقت مزاج کو گرم رکھتی ہے۔
تازہ ترین