• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا مذاکرات کے بغیر دنیا زندہ رہ سکتی ہے، کوئی این آر او دینا چاہتا ہے نہ لینا، شہبا زشریف

اسلام آباد / راولپنڈی ( نیوز ایجنسیز / مانیٹرنگ سیل) مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ کیا مذاکرات کے بغیر دنیا زندہ رہ سکتی ہے، کوئی این آر او دینا چاہتا ہے نہ کوئی لینا چاہتا ہے ، آزاد ارکان کی جہاز اور پیسوں کے تھیلوں سے منڈی لگانے پر انسانیت شرما گئی، قوم نے الیکشن رد کر دیا ، خرید و فروخت کرکے منہ کالا نہیں کریں گے ، دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن کھوج لگا ئے کیسے آر ٹی ایس بند ہوا، ایجنٹس کو کیوں نکالا ، کس طرح ووٹوں کی گنتی ہوئی؟ مشینیں کیوں بند کرائی گئیں؟ اسمبلی مبارکباد دینے نہیں تحقیقات کیلئے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اڈیالہ جیل میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جبکہ ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق، برجیس طاہر، زبیر عمر، رانا ثنااللہ، امیر مقام، مریم اورنگزیب، زاہد حامد، طارق فضل چوہدری، بلیغ الرحمن، عابد شیر علی، رانا تنویر حسین، چوہدری تنویر، بیرسٹر دانیال تنویر، عظمی بخاری ، طارق فاطمی اور ان کی اہلیہ،عطا الحق قاسمی، جاوید ہاشمی، غلام احمد بلور نے ملاقات کی جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ، وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر ،عرفان صدیقی، سینیٹر پرویز رشید اور محمود خان اچکزئی کو نواز شریف سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں نوازشریف سے ملاقات کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہاکہ نوازشریف، کیپٹن (ر) صفدر، مریم اور حنیف عباسی سے ملاقات ہوئی، سب کے حوصلے بلند ہیں، نوازشریف کی جیل میں قید قوم کے لیے بہت بڑی قربانی ہے، وہ لندن سے بیمار اہلیہ کو خدا حافظ کہہ کر آئے، وہ جانتے تھے قید کاٹنا پڑے گی اس لیے وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا ہے کہ ملک میں دھاندلی والا الیکشن ہوا ہے، الیکشن سے پہلے بھی پری پول دھاندلی ہوئی، الیکشن کے دن بھی ہوئی، آج صورتحال یہ ہےکہ الیکشن جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی سراپا احتجاج ہیں، دھاندلی کا شور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میڈیا میں بھی ہے، دھاندلی زدہ الیکشن کو قوم نے رد کیاہے، گزشتہ روز تمام اپوزیشن جماعتوں نے پر امن اور بھرپور احتجاج کیا، موسم کی خرابی کی وجہ سے احتجاج میں نہیں آسکا، لوگ کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہی ہے مگر یہ پہلا احتجاج نہیں تھا، آئندہ بھی ایسے احتجاج ہوں گے، دھاندلی پر اسمبلی میں بھی بات ہوگی اور تمام جماعتیں اس پر اپنی رائے دیں گی، ہم اسمبلی میں الیکشن کے حوالے سے مبارکباد دینے نہیں جائیں گے بلکہ دھاندلی کی تحقیقات کا پہلا مطالبہ ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ نے کہاکہ نوازشریف ملک میں انتشار کی سیاست نہیں چاہتے لیکن جو حق اور ووٹ کے ساتھ دھاندلی ہوئی اس کے اوپر آواز اٹھانا، تحقیقات کا مطالبہ کرنا سب کا حق ہے، اس حق کو ہم آئینی و سیاسی طریقے سے منوائیں گے، اپیل نوازشریف کا بھرپور قانونی حق ہے، یہ جنگ لڑنے کی بات نہیں، اپنے حق کو لینے کے لیے قانونی اور سیاسی راستہ اختیار کریں گے، اے پی سی میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جسے اس بات کی کھوج لگانے کا ٹاسک دیا جائے گاکہ الیکشن والے دن کیسے آر ٹی ایس بند کرایا گیا اور کیوں بند ہوا، پولنگ ایجنٹوں کو کیوں نکالا گیا؟ ان کی غیر موجودگی میں کس طرح ووٹوں کی گنتی ہوئی؟ مشینیں کیوں بند کرائی گئیں؟ ووٹر کی لائنیں سست روی کا شکار کیوں ہوئیں؟ اب تو عدالت عظمیٰ کا بھی بیان آگیا ہے، قوم کو یہ جاننے کا حق ہے ،تمام تر زیادتیوں کے باوجود ہم پنجاب میں سب سے بڑی جماعت ہیں، ہمارے خلاف پرچے کاٹے گئے اور دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں، الیکشن سے دو دن پہلے رات کے اندھیرے میں ہمارے امیدوار کے خلاف فیصلہ سنایا گیا، اس طرح کے واقعات کا تحمل سے مقابلہ کیا، اس کے باوجود قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھی (ن) لیگ کے امیدوار سب سے زیادہ جیتے ہیں۔انہوں نے جہانگیر ترین کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہاز لے کر پیسوں کے تھیلے بھر کر منڈی لگائی، خریدو فروخت کا بدترین سیاسی بازار گرم ہوا جس سے انسانیت شرما گئی، ہم یہ کالا دھندا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، ہم نے خدمت کی ہے اس لیے کالے دھندے میں اپنا منہ کالا نہیں کراسکتا۔مولانا فضل الرحمان کے 14؍ اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم جہدوجہد کے طور پر منانے کے سوال پر شہبازشریف نے کہا کہ کیا ہم 14 اگست کی خوشیوں کے بعد شفاف الیکشن کی خوشیاں مناسکتے ہیں تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر)محمد صفدر سے جیل میں ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، جہاں شریف خاندان اور 25 لیگی رہنماؤں سمیت 40 افراد نے ان سے ملاقات کی۔نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد سے شہباز شریف، انکے صاحبزادے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے ساتھ ساتھ جنید صفدر، مہرالنسا، راحیل منیر نے بھی ملاقات کی۔مسلم لیگ (ن)کے صدر شہبا زشریف لاہور سے بذریعہ موٹر وے اڈیالہ جیل میں پارٹی کے قائد نواز شریف سے ملاقات کے لیے اڈیالہ پہنچے۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق، برجیس طاہر، زبیر عمر، رانا ثنااللہ، امیر مقام، مریم اورنگزیب، زاہد حامد، طارق فضل چوہدری، بلیغ الرحمن، عابد شیر علی، رانا تنویر حسین، چوہدری تنویر، بیرسٹر دانیال تنویر، عظمی بخاری ، طارق فاطمی اور ان کی اہلیہ، عطا الحق قاسمی، سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے ملاقات کی جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ، وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر ،عرفان صدیقی، سینیٹر پرویز رشید اور محمود خان اچکزئی کو نواز شریف سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی ۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف سے ملاقات ان کا بنیادی حق ہے جس سے محروم انہیں رکھا جارہا ہے،جیل کے باہر جاوید ہاشمی کے احتجاج کے دوران کوریج کرنے والے میڈیا نمائندوں سے جیل اہلکاروں نے بدتمیزی کی اور انہیں دھکے بھی دیے،ملاقات کے لیے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ان کے سیلز سے نکال کر کانفرنس روم میں بیٹھا گیا تھا تاہم جیل حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست مرتب کر رکھی تھی اور صرف انہی سے ملاقات کروائی گئی جن کا نام فہرست میں شامل تھا اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اندر اور باہر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے،ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اے این پی کے غلام احمد بلور نے کہا کہ نواز شریف کا حوصلہ ابھی تک بلند ہے، سابق وزیراعظم کے پاس جیل میں کوئی سہولت موجود نہیں ہے اگر ملک میں دوبارہ الیکشن نہیں ہوتے تو حکومت نہیں چل پائے گی۔

تازہ ترین