• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن قبل ہمارے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کراچی کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر عوام کو گمراہ کر رکھا ہے۔ اس بیان پر کراچی کے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام حیران اور پریشان ہوئے کہ بلاناغہ 10سے 15/افراد کا قتل، اغوا برائے تاوان کی روزانہ وارداتیں، ڈکیتیاں، دہشت گردی، قیمتی پلاٹوں پر قبضہ، مارکیٹوں میں بھتہ مافیا کا کھلا راج، پولیس اور رینجرز کی ناکامیاں اس سے زیادہ اور وہ کیا چاہتے ہیں جو شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنا چکی ہیں۔ جمعرات کے اخبار کی اشاعت میں جناب عرفان صدیقی نے کراچی کے حالات پر بہت موثر کالم لکھا۔ راقم بھی اپنے کئی کالموں میں کراچی کے حالات کی سنگینی پر اظہار خیال کر چکا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کئی مواقع پر کراچی آ کر انتظامیہ کے لاء اینڈ آرڈر پر میٹنگ کر کے خصوصی ایکشن لینے کے احکامات بھی صادر کرتے رہے ہیں۔ انتظامیہ خصوصاً پولیس کے سربراہان بھی تبدیل کر کے دیکھ چکے ہیں مگر حالات دن بدن بگڑتے ہی جا رہے ہیں اور اب شہریوں کو یقین ہو چلا ہے کہ اس شہر کو لاوارث سمجھ کر دہشت گردوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ بھی متعدد بار انتظامیہ کو وارننگ دے چکی ہے کہ پولیس اور رینجرز اتنی بڑی تعداد میں گزشتہ2دہائیوں سے تعینات ہے مگر اس شہر کو جس کی آبادی اب2کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ قانون کی گرفت سے باہر ہو چکا ہے۔ اس شہر میں پورے ملک سے لوگ آ کر آباد ہیں، کوئی تعصب نہیں ہوتا تھا، کسی کو منع نہیں تھا مگر اب اسی شہر کو اپنے اپنے علاقوں سے جانا پہچانا جا رہا ہے، علاقے بانٹے ہوئے ہیں۔ کراچی کے صنعت کار ،تاجر ، وکلاء ،سب متاثر ہیں گورنر سندھ عشرت العباد سے بھی ایوان تجارت کے نمائندوں، تاجر ایسوی ایشن کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں، ہڑتال تک کی نوبت آ گئی پھر گورنر سندھ کی یقین دہانیوں کی وجہ سے موخر کر دی گئی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک بھی کراچی آ کر صورت حال کا جائزہ لیتے رہے اور رینجرز کے تعاون سے آپریشن بھی کیا مگر وہ آپریشن اتنے ناقص طریقے سے یکطرفہ کیا گیا کہ وہاں کے باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس رینجرز کی گاڑیاں تک جلا ڈالیں۔
کراچی شہر میں حساس بلڈنگوں کے راستے بند کر دیئے گئے، ہوٹلوں کو چار دیواریوں میں چن دیا گیا ۔ سفارتخانوں کی گلیاں بند کر دی گئیں جس سے عوام اور ٹریفک میں رکاوٹیں پڑیں مگر کچھ فرق نہیں پڑا۔ یہاں تک کہ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری پر پابندیاں لگیں پھر یکم محرم الحرام سے 10محرم الحرام تک بلاجواز موٹر سائیکلوں پر حتیٰ کہ سنگل تک پر بغیر سوچے سمجھے پابندیاں لگائیں۔ وہ تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مہربانی سے یہ حکم نامہ معطل کر دیا گیا ورنہ لاکھوں افراد اپنے اپنے روزگار پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ یکم محرم کو موبائل فون بند کر دیئے گئے، بھلا اس سے بڑھ کر بھی قوم کے ساتھ کوئی مذاق ہو سکتا تھا۔ بجائے اس کے کہ غیر قانونی سمیں بند کرنی چاہئے تھیں وہ تو نہیں کرتے عوام کو خصوصاً کاروباری افراد کو زبردست نقصان ہوا۔ کراچی پورے ملک سے کٹ جائے گا ۔ قتل اور دہشت گردی پھر بھی بند نہیں ہو گی۔پھر اوپر سے ایک نئی تکلیف دہ آفتCNGکے نرخ کم کر کے اس کی سپلائی محدود بنا کر اس شہر کے رہنے والوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ صبح سے شام تک لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاریں لگوا کر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ اس صوبے میں حکومت مشترکہ اتحادیوں سے چلائی جا رہی ہے اور ہر اتحادی شاکی اور باغی ہوتا جا رہا ہے۔ کون کون اس خونی کھیل میں ملوث ہے سب جانتے ہیں مگر کسی مگرمچھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کی وجہ، اتحاد کی زنجیریں نہ ٹوٹ جائیں ۔ حکومت کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے10پندرہ جانوں کی روزانہ امن کے قبرستانوں پر لاشوں کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ نئے وزیر اعظم بھی اسلام آباد میں بیٹھے بیٹھے سندھ حکومت کو احکامات دے رہے ہیں کہ کراچی میں حالات کو کنٹرول کیا جائے مگر کیسے کیا جائے، سب ہی حصہ دار ہیں۔جس پر ہاتھ ڈالیں وہی آنکھیں دکھا کر حکومت کو بے بس کر دیتا ہے۔ ایک طرف محرم کا مہینہ شروع ہو چکا ہے 10دن کی خیر خیریت سے عوام دہشت میں مبتلا ہے۔ جلسے ،جلوس ، امام بارگا ہ حساس علاقوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر کوئی سانحہ سے سہما ہوا ہے اس شہر کو کس کی نظریں کھا گئی ہیں کوئی فوجی حکمرانوں کو الزام دیتاہے کہ انہوں نے اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کیلئے اس شہر کے نمائندوں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی تو کوئی جمہوریت کو الزام دیتا ہے کہ جب بھی عوامی حکومت آتی ہے اس شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔پولیس کم نفری کی شکایت کرتی ہے، رینجرز والے خود اپنا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں۔ خود ان کے ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گرد آزادی سے حملہ کر کے چلے جاتے ہیں آج تک کسی کا سراغ نہیں لگ سکا۔ ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں دھماکہ کر کے پولیس اور رینجرز کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ملک کی معیشت کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ ڈالر گزشتہ 5سالوں میں جو مشرف دور میں60روپے تھا اب 100روپے کی حدیں چھونے کو ہے۔ مہنگائی کا رونا اب لوگ رو دھو کر بیٹھ گئے ہیں اور تمام لوگ اس کی آڑ میں منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں۔ لوگ تو اب یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو مشرف کا دور کہیں بہتر تھا کم از کم دہشت گردی تو نہیں تھی۔ حالانکہ یہی عوامی نمائندے اس وقت بھی مشرف کے ساتھ تھے صرف سربراہان تبدیل ہو گئے مگر حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں۔ خدارا اس شہر کو اس دہشت گردی سے نکالیں ورنہ اگر افریقی ممالک کی طرح حالات مزید بگڑے تو اندرونی خانہ جنگی بھی ہو سکتی ہے۔
آخر میں میرے ایک قاری نے میاں تنویر قادری صاحب کی نظم ” کراچی جل رہا ہے “بھیجی ہے جو عوام کی ترجمانی کر رہی ہے، حاضر ہے۔
مرے آقا مرے مولا ،کراچی جل رہا ہے
کرم کے فیصلے فرما، کراچی جل رہا ہے
محافظ رات دن سر توڑ کوشش کر رہے ہیں
نتیجہ کچھ نہیں نکلا ،کراچی جل رہا ہے
انا کی آگ ہے یا زہر ہے بغض و حسد کا
پتہ کچھ بھی نہیں چلتا، کراچی جل رہا ہے
لبوں پر سسکیاں سہمی ہوئی ہیں بے کسوں کی
یہ عالم خوف سا ہے کیا،کراچی جل رہا ہے
ہر اک جانب ہے اک شور قیامت کی علامت
سنائی کچھ نہیں دیتا ،کراچی جل رہا ہے
نہا کر خاک و خوں میں روز اٹھتے ہیں جنازے
مگر قاتل نہیں ملتا ،کراچی جل رہا ہے
ہزاروں بچوں ،بوڑھوں، ماؤں بہنوں ،بیٹیوں کا
سہارا چھن گیا گویا ،کراچی جل رہا ہے
بھڑکتی آگ نے جو کر دیئے مخدوش چہرے
کراچی پہچان ان کی کیا، کراچی جل رہا ہے
نظر کس کی لگی ان ہستی بستی بستیوں کو
کسی ساحر نے کیا پھونکا ،کراچی جل رہا ہے
نئے دولہا کی دولہن رو کے میت پر پکاری
ابھی سے روٹھ کر مت جا، کراچی جل رہا ہے
مسیح عہد حاضر کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا
مرض ہے کیا دوا ہے کیا ،کراچی جل رہا ہے
نہایت خوں فشاں ہے تری پر جا کے شب و روز
مدد اے شہر کے راجہ ،کراچی جل رہا ہے
میاں تنویر کی ہے التجا رب دو عالم !
کرم کی بارشیں برسا ،کراچی جل رہا ہے
تازہ ترین