• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کی گرمی اور تعمیرات

کراچی کے باشندوں کی اکثریت شاکی ہے کہ گرمی زیادہ پڑنے لگی ہے۔ گھر ہو یا دفتر، ایئر کنڈیشنر کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ مگر حدت میں اضافے کی آخر وجہ کیا ہے؟ ماہرِ ماحولیات کہتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک کے زیادہ تر شہروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس کا سبب عالمی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ تاہم ماہرینِ تعمیرات اس بڑھتی گرمی کا ایک سبب تعمیراتی اسلوب اور ڈیزائن کو ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ،کراچی اُفقی اور عمودی سمت میں پھیل رہا ہے۔ 

مرکزِ شہر سے زیادہ قریب رہنے اور کم زمین کے باعث جگہ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے جنون نے دفاتر، شاپنگ پلازوں اور فلیٹوں کو ایسی بے ہنگم تعمیرات میں تبدیل کردیا ہے، جس میں دھوپ، ہوا، صحت مند ماحول اور توانائی کی کفایت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اسی لیے جب سورج کی روشنی دن میں بھی اندر نہ آئے تو دن رات بلب جلائے جاتے ہیں۔ کراچی میں گرمیوں کے دن بھی ہوا سے خالی نہیں ہوتے، لیکن جب کھڑکیوں کی سمت درست نہ ہو، کئی کئی منزلہ بلاک ایک دوسرے سے جڑے ہوں تو پھر ہوا کہاں سے آئے گی۔

کراچی کا طرزِ تعمیر کیا ہے۔ یہ تو عیاں ہوچکا لیکن اس شہر کا تعمیراتی پس منظر کیا ہے؟

برطانوی عہد (1839ء تا 1947ء) کو کراچی کی تمدنی اور تعمیراتی تاریخ کا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ یوں سرکاری دفاتر، افسران کی رہائش گاہیں، بازار، گرجا گھر اور عام شہریوں کے رہائشی علاقے وجود میں آئے۔ تاہم یہ تعمیرات ساحلِ سمندر اور موجودہ کینٹ اسٹیشن کے اطراف تک محدود رقبے پر مشتمل تھیں اور ان پر گوتھک طرز کی چھاپ تھی۔ جس میں جودھپوری سنگِ زرد کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دور کی عمارتوں میں سرخ کھپریل کی چھتیں، بڑی بڑی کھڑکیاں، روشن دان اور محراب دار برآمدے نمایاں تھے۔

19ویں صدی کی اوائلی چار دہائیوں میں جب کراچی میں بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھی تو خوشحال، متوسط طبقے اور مزدوروں کی بستیاں آباد ہونا شروع ہوئیں۔ خوشحال طبقے میں پارسیوں اور ہندو تاجروں کا شمار ہوتا تھا جن کے بنگلے کشادہ اور برطانوی طرزِ تعمیر اور ہندوستانی فنِ تعمیر کا امتزاج ہوتےتھے۔ متوسط طبقے کے ملازمت پیشہ یا تجارت کرنے والے اور اینگلو انڈین باشندوں نے کھارادر، میٹھادر، برنس روڈ اور صدر کو اپنا مسکن بنایا، جہاں اپارٹمنٹ سر اٹھانے لگے۔ ان تعمیرات میں بھی ہوا کے رخ اور سورج کی روشنی کاخاص خیال رکھا جاتا تھا۔ بنگلوں میں بیٹھک کو ’گول کمرہ‘ کہتے تھے کیونکہ اس گولائی دار کمرے کا رخ مغرب کی سمت مرکزی گیٹ کی جانب ہوتا تھا، جس میں کئی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔ اس کا مقصد دن میں سورج کی روشنی سے کمرے کو روشن اور ہوا سے ٹھنڈا رکھنا ہوتا تھا۔ نیز چھت پر روشن دان کی طرزپر جگہ رکھی جاتی تھی، جسےشیشے سے ڈھانپ کر سورج کی روشنی سے دن میں کمرے کو روشن رکھا جاتا تھا۔

1947ء کے بعد ، ایک دم اس شہر پر آبادی کا بے پناہ دباؤ پڑا۔ وقت کے ساتھ ساتھ منظم اور ماحول دوست طرزِ تعمیر کی جگہ بد انتظامی نے لے لی۔ ماہرین قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں طرزِ تعمیرات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’تعمیراتی تبدیلیوں کا آغاز تو 50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہوچکا تھا، لیکن 70 کی دہائی میں ملک کے دیگر حصوں سے یہاں لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا،جس کے باعث ان کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے تین منزلہ فلیٹوں کی تعمیر اور کچی آبادیوں سے بے ہنگم تعمیرات کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو اب آٹھ دس منزلہ بلاکوں سے بھی تجاوز کررہا ہے۔ پورے شہر میں چند منصوبوں کو چھوڑ کر، کمپاؤنڈ میں پارک کا رجحان تو ختم ہی ہوگیا ہے۔ اب نہ تو عمارتوں میں بیرونی دل کشی کا خیال رکھا جاتاہے اور نہ صحت مند ماحول کا، نہ ہی ہوا کا رُخ دیکھا جاتا ہے اور نہ بالکنی کے فوائد۔ اب نہ تو بنگلوں میں روشن دان ملتے ہیں نہ ہی فلیٹوں میں۔ عالم یہ ہے کہ اگر دروازے اندر سے بند کردو تو پورا گھر قدرتی روشنی اور ہوا سے محروم ہوجاتا ہے۔ کچی آبادیوں کا حال بھی بہت برا ہے۔

کراچی میں تعمیرات میں قواعد کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ 60کی دہائی میں بننے والے ایک ہزار اور چھ سو گز کے دو منزلہ رہائشی بنگلوں کو بھی اب لوگوں نے تجارتی کیٹیگری میں تبدیل کروا کر بِلڈرز کو بیچنا شروع کردیا ہے۔ اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ خریدار کو بھی غرض نہیں کہ فلیٹ کتنا صحت مند ماحول رکھتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ، کراچی میں بے ہنگم تعمیرات اقتصادیات پر بوجھ ہیں اور اس سے توانائی کی ضرورت بڑھی ہے۔ اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ شہر میں ایئر کنڈیشنر استعمال کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ اندازوں کے مطابق دفاتر ہوں یا گھر، کم از کم پچیس فیصد شہری ائیر کنڈیشنر استعمال کرتے ہیں۔ خوشحال علاقوں کے ایک گھر میں دو سے چار تک ائیر کنڈیشنر کام کررہے ہیں۔ دفاتر میں تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم پچاس لاکھ سے زائد ائیر کنڈیشنر دن رات چلتے ہیں۔ مکان اور فلیٹس کی تعمیر میں تھوڑا سا خیال رکھا جائے تو ماحول کی بہتری کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم گھروں کو ٹھنڈا اور شہر کو گرم کررہے ہیں۔

تازہ ترین