یہ امر انتہائی خوش کن ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4ارب ڈالر یعنی تقریباً 5کھرب روپے کا قرض فراہم کرے گا۔ برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات میں دھنسا ہے اور آنے والی حکومت کو آتے ہی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے 12ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اسلام آباد سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ تین ماہ سے دو ارب ڈالر ماہانہ کرنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ 5سال قبل کرنٹ خسارہ 2ارب ڈالر سالانہ تھا، اب یہ دو ارب ڈالر ماہانہ ہو چکا ہے۔ عہد حاضر میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں وہی ممالک کوئی مقام حاصل کر سکیں گے جو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوں گے، خاص طور پر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اب دنیا کو ہتھیاروں کے انباروں سے نہیں بلکہ اپنی مضبوط و مستحکم معیشت کے بل پر زیر اثر لایا جا سکے گا۔ اس حوالے سے امریکی و برطانوی تھنک ٹینکس کا بھی مشترکہ موقف یہی ہے کہ کوئی ملک اب صرف مضبوط معیشت کے باعث ہی حاکمیت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گا اور ترقی کا معیار صرف اور صرف معاشی ترقی کو ہی قرار دیا جائے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نہ تو تاریخ سے کچھ سیکھتے ہیں نہ مستقبل کے تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت تو سب پر عیاں تھی کہ ملک میں بننے والی کسی بھی حکومت کے لئے سب سے بڑا اور بنیادی چیلنج اقتصادی استحکام ہو گا کیونکہ یہ اعداد و شمار سب کے سامنے تھے اور ہیں کہ پاکستان 95ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ملکی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ قرضہ ہے، جاری خسارہ 18ارب ڈالر، گردشی قرضے 10ارب ڈالر ہیں جبکہ ہماری برآمدات 28سے 29ارب ڈالر ہیں اور درآمدات اس سے دوگنا یعنی 60ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ پچھلی دو جمہوری حکومتوں سے قبل پاکستان پر مجموعی بیرونی قرضہ 37ارب ڈالر تھا جبکہ محض دس برس میں اتنا قرضہ لیا گیا جتنا مجموعی طور پر پچھلے 60برس میں بھی نہیں لیا گیا تھا۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جس کے 40فیصد عوام خط افلاس کے نیچے زندگی کرنے پر مجبور ہیں اور جس کے کم و بیش 2کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی حکومت کو بلاشبہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ لازمی بات ہے کہ پہلے سے لئے گئے قرضوں کا سود اتارنے کے لئے اسے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑے گا جو قرضے دے کر مقروض ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق خیال کرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنی شرائط قبول کئے جانے کے بعد ہی قرضہ جاری کرتا ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت جو ناقابل برداشت مہنگائی اور بیروزگاری ہے اس کی بڑی اور بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے قرضے بھی ہیں، جن کے باعث عوام کو بجلی اور تیل جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا پر دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ کر دیا گیا اور مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی۔ آئندہ حکومت کو سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسی اعتبار سے مدبرانہ فیصلے بھی کرنا پڑیں گے۔ ٹیکس اصلاحات نافذ کرنا از بس ضروری ہے اور غیر ملکی ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات بھی۔ تاہم یہ سب اقدامات فوری طور پر ہو بھی گئے تو پاکستان اس پوزیشن میں نہ ہو گا کہ بیرونی قرضے خود ادا کر سکے اس کے لئے پاکستان کے دوست ممالک کو معاونت کرنا ہو گی تاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف پر کم سے کم انحصار کرنا پڑے۔ عالمی برادری کو بھی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاشی و اقتصادی تعلقات بڑھانا ہوں گے۔ خاص طور پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ملک معاشی مسائل کے گرداب سے نکل سکے۔ اسلامی ترقیاتی بینک کی طرز پر پاکستان کی مدد کرنا اس وقت پاکستان کے دوست ممالک پر واجب ہے۔