• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھانے والے والدین کی اکثریت یاتو محنت مزدوری کرنے اورچھوٹی موٹی پرائیویٹ ملازمت کرنے والوں کی ہے یا پھرمتوسط اور سفید پوش طبقہ کی ہے جس کی محدود تنخواہ میں ہرسال ہونے والا اضافہ گھریلو اخراجات کے مجموعی اضافے سے کہیں کم ہوتا ہے ان حالات میں والدین بچوں کی فیسیں بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر اور بہت سی سماجی ضروریات سے دامن بچا کر اور نفس کشی کرکے ادا کرتے ہیں لیکن فیسوں میں کیا جانے والا اضافہ لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا اور ذہنی مریض بنا ر ہا ہے ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی بھی اسی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ سندھ ہا ئی کورٹ نے نجی سکولوں کو سالانہ پانچ فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے سے روکنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے والدین سکھ کا سانس لیں گے اس کے باوجود بہت سے تعلیمی ادارے جملہ اخراجات کے نام پر طرح طرح سے جو رقوم وصول کرتے ہیں یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہئے ان اخراجات میں وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والے ایونٹس، تعلیمی اور تفریحی دورے، امتحانات کی فیس، یونیفارم اور کتابیں سکول سے حاصل کرنے کی پابندی وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یقیناً بہت سے مدرسے اب متبادل اقدام کے طور پر والدین پر اضافی بوجھ ڈالنے کے دوسرے طریقے اختیار کر سکتے ہیں جس پر کڑی نظر رکھی جانی چاہئے۔ ہائی کورٹ نے یہ مستحسن فیصلہ والدین کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست پر سنایا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نجی سکولوں نے خلاف ضابطہ 10سے 13فیصد فیسیں بڑھا دی ہیں اور داخلہ فیس ایک لاکھ تک کر دی ہے۔ امید ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی تقلید میں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی قریہ قریہ اس اقدام کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں اور دیگر اخراجات میں من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین