• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرینڈ اپوزیشن الائنس کی کل جماعتی کانفرنس نے حکومت سازی کے عمل میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا۔ 3اگست 2018ء کے قومی اخبارات میں اس اعلان کا خلاصہ یہ تھا ’’اپوزیشن اتحاد وزیر اعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لے گا، ایوان کے اندر اور باہر اپنے موقف کے اظہار اور اسے منوانے کے لئے احتجاج جاری رہے گا، 16رکنی جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائم کر دی گئی جس نے ٹی او آر طے کرنے ہیں، وزیر اعظم کا امیدوار ’’ن‘‘ لیگ، اسپیکر پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کا امیدوار ایم ایم اے سے ہو گا، ناموں کا اعلان متعلقہ جماعتیں خود کریں گی، وزیر اعظم کی حلف برداری کے روز جلسہ عام منعقد کیا جائے گا، دھاندلی کا وائٹ پیپر شائع ہو گا، مریم اورنگ زیب کے مطابق ’’پی ٹی آئی کو بتائیں گے اپوزیشن کیا ہوتی ہے‘‘۔ ان میں سے متعدد امور ان سطور کی اشاعت تک کھل چکے ہوں گے۔
پارلیمانی طرز حکومت میں یہی طریق کار ہے، پارلیمنٹ کے فورم کی مرکزی اہمیت کسی بھی حوالے سے کم نہیں کی جاتی، تمام ’’سیاسی جنگیں‘‘ اسی فورم پر لڑی جاتی ہیں۔ یہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت کا بھی ثبوت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ارکان کو حلف نہ لینے کے اصول سے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بن کر حزب مخالف کی سیاسی تگ و دو میں کردار ادا کرنے کی سیدھی راہ پر چلے گئے ہیں۔
سیاستدانوں اور عوام، ہم سب کو ہر پانچ سال کی آئینی مدت کے بعد عام انتخابات کے انعقاد پر تمام تر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کو فساد فی الارض والی سیاست سے خود کو ہر سطح پر علیحدہ رکھنا ہو گا۔ یہی وہ واحد صبر اور انتظار کا راستہ ہے جو بالآخر غیر جمہوری قوتوں اور عناصر کو پاکستانی تاریخ کا قصہ پارینہ بنا دے گا۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی حکومتوں کے مثبت اقدامات کے تذکرے یا اعتراف کا باب تقریباً بند ہو چکا ہے۔ ہم ہر وقت اپنے مخالف حکمران کو زیرو ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں، رہی سہی کسر الیکٹرونک میڈیا کا اجتماعی طرز عمل پوری کر دیتا ہے۔ شب و روز ہمارے ملک میں اس رویے کا راج ہے، ایسا لگتا ہے اس دنیا کے پیدا شدہ ’’گنہگاروں‘‘ میں ’’پاکستانی سیاستدان‘‘ سے ’’بڑا گنہگار‘‘ اور ’’پاکستانی سیاسی حکومتوں‘‘ سے ’’بری خطاکار حکومتیں‘‘ وجود میں نہیں آئیں اور نہ تاقیامت ایسا کوئی وقوعہ ہونے کا امکان ہے۔
کچھ عرصہ قبل بے حد محترم و عزیز ترین ہستی کے دولت کدے پر دوست احباب کا ایک دلنشیں اجتماع تھا، ایک مرحلے پر خاکسار نے عرض کیا ’’سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے تاریخی کارنامے 1122اور صوبہ پنجاب کے اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کا نظام بدلنے میں ان کی خدمات سے کوئی ہوشمند شخص کیسے انکار کر سکتا ہے؟ یہ محض دو مثالیں ہیں دسیوں اور بھی دی جا سکتی ہیں۔ ہم سب کو سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے احتساب کے نام پر ’’ملت اسلامیہ کی تیرہ چودہ سو برس کی خامیوں اور زوال کا بار‘‘ صرف پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں پر ڈالنے کے اس ناقابل تلافی مریضانہ رویے سے خود بھی رک جانا چاہئے، جن لوگوں کا دال دلیہ یا دنیاوی منصوبہ سازوں کی چکر بازیوں کو ان حیلوں سے غذا اور زندگی ملتی ہے انہیں بھی باز رکھنے کی اپنی سی ہر کوشش کر دیکھنی ہو گی، پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے معاملے میں جس انتہا پسندی کا کھلواڑ کیا جا رہا ہے وہ اس بچے کھچے ملک کی سلامتی کی پیشانی پر بدقسمتی کے سرخ نشان کا روپ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب نواز شریف نے موٹر وے منصوبے کا آغاز کیا، ابھی نامکمل ہی تھا، مکمل ہونے سے پہلے ہی اقتدار سے فارغ کر دیئے گئے۔ دوسری بار حکومت ملنے پر ادھوری موٹر وے کی تکمیل کا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں پر ادھورا رہ گیا تھا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جناب حسین حقانی نواز شریف صاحب سے علیحدگی اختیار کر کے بی بی شہید کی قیادت قبول کر چکے تھے۔ آپ سب غالباً اس امر سے آگاہ ہوں گے، وطن سے ’’ہجرت‘‘ پر مجبور کر دیئے جانے والے حسین حقانی کی جن قلمکاروں نے فیصلہ کن حمایت کی اور آج بھی ان کے پاکستانی حق کی جنگ لڑنے پر ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں، عاجز غالباً ان میں سرفہرست ہے۔ موٹر وے کے پس منظر میں ان کا ریکارڈ مجھے نہ صرف کبھی بھولتا نہیں الٹا جب بھی یاد آئے انتہائی ڈپریشن میں بھی بے ساختہ مسکراہٹ روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان دنوں جناب حقانی کا ایک ہی کام تھا، پیمانہ ہاتھ میں لئے رکھنا، کسی نہ کسی طرح روز صبح موٹر وے کی پیمائش کر کے قوم کو یہ بتا بتا کر ہلکان کرنا کہ ’’چھ لینوں‘‘ کے یہ نقصان ہیں، ’’چار لینوں‘‘ کے یہ ’’فائدے‘‘ ہیں۔ یہ نواز حکومت مملکت پاکستان کی دھرتی پر جس طرح کی موٹر وے بنا رہی ہے وہ ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دے گی۔ پاکستانی عوام پہلے ہی اپنے احوال کے بوجھ تلے پسے ہوئے ہیں، وہ تو بالکل ہی کچلے جائیں گے وغیرہ وغیرہ اور مزید بھی وغیرہ ہی! لیکن حضرات موٹر وے مکمل ہو گئی، آج جنوبی ایشیا کی خطہ سازی کے تمام نشیب و فراز کے متشکل کرنے یا ہونے میں، اس موٹر وے کے صدقے پاکستان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجلس میں خاکسار کی گفتگو کچھ طویل ہو گئی مگر اپنی بات ختم کرتے کرتے عاجز شہباز شریف کی حکومت کے موضوع پر بھی چند جملے کہے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے شرکائے مجلس سے سوال کیا ’’بلا کسی ذاتی تعصب یا مخالفانہ کیفیت کے، یہ بتائیں لاہور شہر کا آبادی کے بڑھائو اور ٹریفک کے دبائو کے باعث جو حال ہو گیا تھا، کیا اس میں بندے پر پائوں رکھ کر چلنے کی قیامت ٹل چکی ہے۔ ہمیں اپنی تنقید اور احتساب کے خطوط متوازی رکھنے کی عادت ڈالنا ہو گی، تنقید اور احتساب کو سوئیوں کا گچھا بنانے کی ضرورت نہیں جس کے بعد مسائل کی ترتیب اور جائزے کے امکانات ہی معدوم ہو جائیں!‘‘
خدمات تو پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی گنوائی جا سکتی ہیں، فی الحال کالم کی طوالت اس کی متحمل نہیں، ایک ایٹم بم ہی کافی ہے، آج پوری دنیا میں ہر اکڑفوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے ہو، کہنے کا مقصد سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کو کلین چٹ دینا ہرگز نہیں، ہاں! انہیں شیطان کا انگوٹھا ثابت کرنے کی انسانیت سوز مہم کے غیر اخلاقی فلسفے اور فکر کی سو فیصد مذمت کرنا ضرور مقصود ہے۔
چنانچہ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کو اس کے فورم پر چلانا ہو گا، حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف مر مٹنے کے جذبے کے بجائے جمہوری تسلسل کے قائم رہنے کے جذبے سے کام کرنا ہو گا یعنی وہی صبر اور انتظار۔
(جاری)
پس نوشت
’’پھانسی پر جھولنے‘‘ کا جملہ
3اگست ہی کے قومی اخبارات میں سابق وزیر مملکت برائے داخلہ اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کے ایک مقدمے میں سزا سنا دی گئی۔ وہ کسی بھی عوامی عہدہ سے پانچ سال کے لئے نااہل ہو چکے، عدالت عظمیٰ نے انہیں ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا اور تابرخاست عدالت قید بھی کاٹی۔ فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طلال چوہدری نے ایک جملہ کہا ’’اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے عوام پر چھوڑ دینے چاہئیں، جب کوئی آمر پھانسی پر جھولے گا تب عدل کا بول بالا ہو گا، عدالت کا وقار بلند ہوا ہے تو سزا قبول ہے، اپیل کریں گے‘‘۔ سیاسی جدوجہد کے دوران میں حساس معاملات اور واقعات اس کشمکش کا حصہ ہیں چنانچہ طلال چوہدری بھی اس روایت کا حصہ بن گئے۔ ان کا ردعمل متوازن تو ہے تاہم انہیں ’’جب کوئی آمر پھانسی پر جھولے گا‘‘ کا اظہار یا بات ہرگز ہرگز زبان نہیں لانا چاہئے تھی۔ پاکستان کے ماضی میں خون کے دریائوں اور لکیروں کی کوئی کمی نہیں، ہمیں پاکستان کو آئینی ریاست بنانا ہے، خدانخواستہ پھانسی گھاٹوں کی سرخ آندھیوں کی آرزو نہیں کرنی چاہئے!‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین