• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کبھی بھی نئے پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو کسی نہ معلوم کے اس قول کا’’ووٹ کو عزت دو اور خدمت کو ووٹ دو‘‘ کا ذکر ضرور ہو گا۔ ہمارے ہاں جمہوری حکومتوں کا اقتدار ابھی تک قابل رشک نہیں ہے۔ چند سال پہلے تک جمہوریت، اشرافیہ اور سیاست دانوں کی کنیز نظر آتی تھی اور نوکر شاہی جمہوریت کی راکھیل تھی۔ ماضی میں آزادی کے بعد کوشش کی گئی کہ برطانوی طرز پر جمہوری ڈھانچہ مضبوط کیا جائے۔ پاکستان کے پہلے شہید وزیر اعظم نے مسلم لیگ کے ذریعے جمہوریت کا راج چلانے کی کوشش کی ۔ ان کا نظریہ قائد اعظم کے اقوال کے مطابق نہ تھا۔ ان کو کسی سرپھرے نے جلسہ عام کے درمیان قتل کر دیا اور قاتل کو ایک پولیس والے نے پکڑنے کی بجائے جذبہ انتقام کی آڑ میں قتل کر دیا اور جس سازش کے ذریعے یہ سب کچھ ہوا ۔ اس پر اس وقت کی قابض جماعت اور حکومت نے کوئی تحقیق بھی نہ کی اور جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری طرز حکومت چلتا رہا۔ اس وقت بھی ہماری فکر صرف امریکہ کو تھی۔ جب جنرل ایوب خان نے صدر پاکستان ا سکندر مرزا کو جبری طور پر نا اہل کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ تو امریکہ نے جمہوریت کی غیر طبعی موت پر اظہار افسوس بھی نہ کیا۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا پاکستان میں انتخابات مقررہ وقت پر ہونے مشکل لگ رہے ہیں۔ مگر میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ جب نا اہل وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس وقت مسلم لیگ نون نے نوشتہ تقدیر کو پڑھنے کی زحمت تک گوارہ نہ کی۔اصولی اور اخلاقی طور پر اس وقت ہی اسمبلیوں کو توڑ کر انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ مگر قابض سیاسی جماعت کی اشرافیہ اقتدار کو فوری طور پر چھوڑنے کو تیار نہ تھی اور نہ ہی ہمارے ہاں ایسی کوئی جمہوری روایت تھی اس وقت خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت نے اپنے لیڈر سے عمران خان سے رہنمائی مانگی۔ عمران خان کو انتخابات کی تیاری کے لئے ابھی وقت درکار تھا۔ اس نے پرویز خٹک کو مشورہ دیا۔ دیکھو اور انتظارکرو اور عوام کے لئے اپنے وقت کو وقف کر دو۔ اس وقت جمہوریت کا آسیب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں بہت اثر انگیز تھا۔ دوسری طرف دونوں حریف جماعتیں قبل از وقت انتخابات پر یک سو نہ ہو سکیں۔ سندھ پر زرداری اور بلاول کا کنٹرول جمہوریت کی روح کے منافی تھا اور ایم کیو ایم کو بے اثر کرنے کے لئے ضروری تھا ۔ مرکز نے نیب کے ذریعہ سندھ سرکار کو دبانے کی کوشش کی۔ تو زیادہ نقصان جمہوریت کے نظریہ کا ہوا۔
میاں نواز شریف کے خلاف جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو پنجاب کے صوبے دار اور خادم اعلیٰ کے دعوے دار شہباز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار کو حالات کی ستم گری کا اندازہ ہو رہا تھا۔ دونوں نے کئی بار سابق وزیر اعظم کو نااہلی سے بچانے کے لئے خبردار کرنے کی کوشش کی۔ مگر افسوس کچن کیبنٹ کے اہم لوگ جن میں مریم صفدر، پرویز رشید، مریم اورنگ زیب، مشاہد اللہ وغیرہ نے کوئی بھی سنجیدہ اور قابل عمل مشورہ سیاسی طور پر نہیں دیا۔پھر صوبے دار پنجاب ان کی طرف سے بھی کسی خطرے کا اندیشہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ اور تمام سیاسی معاملات صرف نظر ہوتے گئے۔ پھر میاں نواز شریف اور کچن کیبنٹ کی منشا اور مرضی سے جے آئی ٹی بنوائی گئی اور یقین کر لیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے کار کر دیا جائے گا۔ اس وقت بھی سابق وزیر داخلہ نے کوشش کی کہ جے آئی ٹی کی بجائے کوئی مناسب جمہوری راستہ نکالا جائے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات نے میاں صاحب کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا۔ پیپلز پارٹی کے زرداری صاحب نے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ نون کو بے بس کر دیا۔ دونوں جماعتوں کی من مانی نے جمہوریت کو مزید کمزور کیا اور جمہوریت کا نظریہ بھی قابل اعتبار نہ رہا۔
ہماری سیاسی اور معاشی مشکلات کا مستقل حل جمہوریت پر ایمان لانا اور اس کو لاگو کرنے سے شروع ہوا۔ بے چارے پرویز مشرف نے امریکی دوستوں اور برطانوی مہربانوں کی توجہ سے معافی اور تلافی کا ایک قانون منظور کروایا۔ جس کے بعد ہی بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ملک میں واپس آنے پر تیار ہوئے۔ دوستوںاور مہربانوں کے لئے یہ صورت حال خاصی خطرناک تھی۔ سو پہلے مرحلہ میں قربانی کے لئے بے نظیر کو چنا گیا اور جمہوریت کو مزید موثر کرنے کے لئے بے نظیر کی لازوال قربانی نے امریکہ اور برطانیہ کے قبول سیاسی جلاوطن زرداری صاحب کو بڑی سیاسی جماعت کی رہنمائی دے دی۔ موصوف نے اپنے امریکی اور برطانوی سیاسی مہربانوں سے جمہوریت کو کامیاب کرنے کے لئے ملک کی صدارت مانگ لی۔ اس سے ان کو تحفظ حاصل ہو گیا اور بے نظیر اور میاں نواز شریف کی جمہوریت پر ایمان اور یقین کا معاہدہ زیادہ ضروری ہو گیا۔ پھر جمہوریت کے کارن ہی سابق صدر پاکستان کو کہنا پڑا ۔ جمہوری معاہدے قرآن اور حدیث نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے مہربانوں اور قدر دانوں کو شکایت کی اور ان کی شکایت پرانہوں نے مشکل کشائی کی۔
پاکستان میں جمہوریت کا بیج مصنوعی طور پر پہنچا اور جب وہ کمزور سا پودا پاکستان کی زمین پر لگا دیا گیا تو اس کو بچانے کے لئے سیاسی حلقوں نے زبردست قسم کی مالی اور معاشی روایتوں کا استعمال شروع کیا۔ ان کے خیال میں جمہوریت کے پودے کی حفاظت اور آبیاری کے لئے کچھ لوگوں کا امیر کبیر ہونا ضروری ہے۔ سوبے نظیر نے اس نظریہ کو قبول کیا اور امریکہ کے مشیروں نے اور میاں نواز شریف کے برطانوی دوستوں نے بھرپور مدد کی اور دونوں کے مالی اثاثے حیرت انگیز تیزی سے بڑھتے گئے آصف علی زرداری کے لئے یہ انوکھا تجربہ تھا اور میاں نواز شریف کے لئے کاروبار کا نیا انداز تھا۔ ایسے میں ایک اور کھلاڑی پاکستان کی جمہوری پودے کی حفاظت کے لئے میدان میں نظر آیا۔ برطانوی تعلیم اور کرکٹ کے کھیل نے اس کا جمہوریت پر ایمان مضبوط کیا۔ وہ بے چارہ اکیلا ہی جانب منزل چلا۔ مشرف کو وہ پسند آیا۔ مگر وہ اپنی مرضی اور اپنے ڈھب کا انوکھا لاڈلا نکلا۔ وہ جمہوریت کے لئے عدل و انصاف کا شفاف نظام چاہتا تھا۔ جو پاکستان کے سیاسی جادوگروں اور بین الاقوامی مہربانوں اور قدر دانوں کو منظور نہ تھا۔ وہ بھی ایک سر پھرا انسان اسلام کے مطابق یقین کے ساتھ میدان عمل میں اترا اور مولا نے اس کی رہنمائی اور کامیابی کے لئے اس کو تیسری مرتبہ جیون ساتھی دیا۔
انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے مقابلہ دل ناتواں کے ساتھ خوب کیا۔ میاں نواز شریف کی نا اہلی نے مسلم لیگ کو کمزور بھی کیا ۔ زرداری اور بلاول بھی سندھ سے باہر غیر مانوس ہی رہے۔ مذہبی جماعتوں کو بھی تشویش لاحق رہی اور تقریباً سب ہی نے انتخابات سے قبل ہی شو کرنا شروع کر دیا کہ مبینہ دھاندلی شروع ہو گئی ہے۔ ان انتخابات کے لئے فوج اور اعلیٰ عدلیہ کا کردار بہت ہی مثبت رہا۔ مگر ہمارا میڈیا سب کچھ چھاپنے اور دکھانے کے باوجود اپنی آزادی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ انتخابات کے بعد اب عمران خان ملک پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ انتخابات کے بعد ان کا بیانیہ بہت شفاف اور قوم پرستی سے بھرپور تھا۔ لوگ ان سے بہت امیدیں رکھتے ہیں۔ ان کا قول اور کردار ان کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے۔ عمران خان ملک میں جمہوریت کے نظام کو انصاف اور قانون کے ذریعے لاگو کر سکتے ہیں۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی توہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

تازہ ترین