• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف جانتے تھے کہ نواز شریف نے نااہلی کے بعد جو راستہ اختیار کیا اس کی وجہ سے ان کا (شہباز شریف ) وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ اسی لئے الیکشن تک وہ ’’بیانیے‘‘ کی کنفیوژن سے باہر نہ نکل سکے اور بالآخر تخت لاہور کا تختہ ہو گیا۔ اب مسلم لیگ ن کے لئے مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے امکانات ختم ہو چکے ہیں کیونکہ 16اگست تک نیا وزیراعظم مرکز اور صوبوں میں اپنی حکومت قائم کرے گا۔

اب شہباز شریف کو یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ واقعی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں یا نہیں؟ شہباز شریف اپوزیشن کی کسی تحریک کی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ بطور وزیراعلیٰ کسی وزیراعظم کیخلاف اپوزیشن کرنا اپنے سیاسی مخالف کے خلاف بطور اپوزیشن لیڈر کردار ادا کرنے سے مختلف ہے۔ بطور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے آصف زرداری کی حکومت کے خلاف سخت اپوزیشن کی لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ پنجاب اور مرکز میں وہ اور انکی جماعت برسراقتدار نہیں ۔وہ پنجاب اور مرکز میں اپوزیشن میں ہیں۔ اس لئے جتنی جلدی وہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں اتنا ہی اچھا ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ قطع نظر اس بات کہ وہ سیاسی طور پر کتنا موثر اور مضبوط تھا بالآخر اس نے انہیں جیل میں پہنچا دیا، گو کہ پھانسی گھاٹ تک نہیں پہنچایا لیکن اقتدار سے ہمیشہ کیلئے دور کر دیا ہے۔ ملک کے دو مضبوط ترین اداروں کے ساتھ ماتھا لگا کر آپ اقتدار کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ اس بیانیہ کا اختتام بالآخر تخت لاہور کے ہاتھ سے نکلنے کی شکل میں وقوع پذیر ہوا اور جب تک پی ٹی آئی کی حکومت بے شمار غلطیاں نہیں کرتی تب تک پنجاب میں مسلم لیگ ن کے اقتدار میں واپسی کے کوئی امکانات نہیں۔

اس لئے شہباز شریف کو حزب اختلاف میں جتنی جلدی ہوسکے اپنا کردار واضح کرنا ہو گا، اگر وہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں تو یہ بہتر ہو گا کہ وہ کسی اور سینئر رہنما کو اپوزیشن لیڈر کا کردار دیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو اپنی پارٹی اور خاندان کی میراث کو جاری رکھنے کیلئےاب مریم اور حمزہ کی طرف دیکھنا ہو گا۔ کیونکہ اس سے پارٹی میں اصلاحات کا پہلو بھی نکلے گا اور دیگر سینئر رہنمائوں کو پارٹی کی قیادت کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ نظریاتی نواز شریف اپنی جماعت کو نظریاتی جماعت بنا سکتے ہیں جس کیلئے شریفوں کو عمران فوبیا سے باہر نکلنا ہو گا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی ناکامی نے عمران کے لیے اقتدار کا راستہ کھولا ہے۔ شہباز شریف تخت لاہور کھونے کے دکھ سے جتنی جلدی ہو سکے نکل آئیں، گو کہ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں بری کارکردگی نہیں دکھائی تاہم اگر نواز شریف پارٹی کے اندرونی اختلافات پر قابو پا لیتے تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ شہباز شریف کے دفاعی انداز نے پارٹی ممبران اور اپوزیشن کے حوصلے پست کئے ہیں۔

اپوزیشن کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شکست خوردہ ذہن کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا نہیں کیا جا سکتا اور شہباز شریف کو یہ بات عمران خان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کے احتجاج میں ان کے نہ جانے کا فیصلہ ناصرف ان کے لئے بلکہ ان کے قیدی بھائی اور کارکنوں کیلئے بھی ٹھیک ثابت نہیں ہوا۔ 2013ء کے الیکشن میں شکست کے بعد عمران خان نے چار حلقے کھولنے کے نام پر حکومت پر واضح پریشر برقرار رکھا ۔

تازہ ترین