• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز بعد میرا۔ آپ کا سب کا یوم آزادی ہے۔

یہ دن مجھے بہت کچھ یاد دلادیتا ہے۔ میں بھی ان قافلوں میںشامل تھا۔ جو ایک غلام سر زمین سے آزاد سر زمین کی طرف ہجرت کررہے تھے۔ اندھیروں سے اُجالوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مال گاڑی کا یہ کھلا ڈبّہ 71سال سے میری یادوں میں سب سے زیادہ نمایاں تصویر ہے۔ اس کی چھت نہیں تھی۔سخت چلچلاتی دھوپ تھی۔ میں اپنی والدہ کی گود میں تھا۔وہ اپنے آنچل سے مجھ پر سایہ کررہی تھیں۔ میں ایک ماں کی گود میں تھا۔ ایک ماں کو چھوڑ کر آرہا تھا۔ ایک ماں۔ ایک دھرتی کی آغوش میں جانے کے لئے بے تاب تھا۔ میرے عظیم والد بڑے بھائی اور بہت سی اجنبی ہستیاں۔ مگر منزل ایک ۔ دشمن بھی ایک۔ کبھی کبھی بلوائیوں کی آوازیں قریب ہوتیں ۔گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیتیں۔ میری والدہ مجھے اور زیادہ قریب کرلیتیں۔ بازوئوں کی گرفت مضبوط کرلیتیں۔ بڑے بھائی کو بھی ساتھ چمٹالیتیں۔


ہم انبالہ چھائونی سے لاہور آرہے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے ہزاروں ٹرینوں سے۔ پیدل۔ ٹرکوں میں آزاد وطن کی دُھن میں چلے آرہے ہیں۔


آزادی کیا ہے۔


ان قافلوں کی تصویروں میں جھانکیں۔


نقش ہجرت ہیں جن کی تصویریں


میں بھی ان قافلوں میں شامل تھا


ان بزرگوں کی آنکھوں میں اُتریں۔ جن کے پیارے ان کے سامنے لہو میں نہلا دیئے گئے۔ جو اپنے بسے بسائے گھر بار چھوڑ کر اپنی مرضی سے آرہے تھے۔ یا مجبور کردیئے گئے۔ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک پل میں کیسے پہلے غیر ہوجاتے ہیں ۔ پھر ازلی دشمن۔


آزادی کیا ہے۔ ان قبرستانوں میں جاکر پوچھئے۔ جہاں یہ گمنام سپاہی ابدی نیند سورہے ہیں۔


آج ہم آپ اور نئی نسل آزاد ہے۔ اپنی مرضی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی رُکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ ایک ایک گلی میں قیمتی گاڑیوں کی قطاریں ہیں۔ نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ نت نئے فیشن کے ملبوسات۔ قیمتی موبائل فون ہیں۔ جو ہر وقت کان سے چمٹے رہتے ہیں۔پھر بھی گلے شکوے ۔ ہم برباد ہوگئے۔ ہم تباہ ہوگئے۔ہم نے یہ ملک کیا اس لئے بنایا تھا۔ کچھ بد بخت ملک کو بھی برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔


آزادی کیا ہے۔ ان مسلمانوں سے پوچھیں جو اب بھی ہندوستان میں دوسرے تیسرے درجے کے شہری کی زندگی گزار رہے ہیں۔


آزادی کیا ہے۔ ان لاکھوں کشمیریوں سے جاننے کی کوشش کیجئے جو 71سال سے اس آزادی کے لئے جدو جہد کررہے ہیں۔ لاکھوں قربان ہوچکے ہیں۔ لاکھوں جاں نثار کرنے کے لئے تیار ہیں۔


آزادی کی قدر جانیے۔ ان فلسطینیوں سے جو ایک آزاد ریاست کے لئے 1948 سے لڑ رہے ہیں۔کتنی نسلیں اس جدو جہد کی نذر ہوچکی ہیں۔ آزادی کیا ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ کنارے کے گائوں نبی صالح کی کمسن احد تمیمی سے دریافت کیجئے۔ اس کی جرأتوں کو سلام۔


ہم آزاد ہیں۔ ملک ہمارا ہے۔ فوج ہماری۔ سمندر ہمارا ۔ عدلیہ ہماری۔ ساحل ہمارا۔ میڈیا ہمارا۔ میدان ۔ دریا۔ ریگ زار۔ کوہسار۔ دنیا کے حسین ترین شمالی علاقے ۔ناران۔ کاغان۔ مالم جبہ۔ سوات۔ بالاکوٹ۔ وادیٔ نیلم۔ لہلہاتے کھیت۔ مصنوعات تیار کرتے کارخانے۔ سونے تانبے کے ذخائر۔ سب ہمارے ہیں۔


میں ان نوجوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جو ملک کے ہر شہر میں پاکستانی پرچم موٹر سائیکلوں پر لگاکر فخر سے گھوم رہے ہیں۔ 14اگست کو تو پرچموں کی بہار آجاتی ہے۔ میں شہدائے آزادی کی روحوں سے ہمکلام ہوتا ہوں انہیں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں دیکھیں۔ آپ کی قربانیاںرنگ لائیں۔ آپ کے پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں۔ پڑ پوتے۔ پڑنواسے۔کتنے خوش ہیں۔ کس قدر متحرک ہیں۔ فعال ہیں۔ پُر جوش ہیں۔ آپ کی حاصل کردہ آزادی کو کس طرح سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آج کا دن ہر پاکستانی کا دن ہے۔ کوئی اور وابستگی نہیں ہے نہ کوئی سیاسی پارٹی۔ نہ فرقہ۔نہ مسلک۔ آج سب پاکستانی ہیں۔ آج صرف یہی پرچم ستارہ و ہلال لہراتا ہے۔ موٹر سائیکل۔ سائیکل۔ تانگے۔ ریڑھیاں۔ گدھا گاڑی۔ اونٹ گاڑی۔ مہنگی ترین کاریں۔ سستی گاڑیاں سب پر ایک ہی پرچم۔


کراچی۔ لاہور۔ اسلام آباد۔پشاور۔ کوئٹہ۔ گلگت۔ مظفر آباد۔ ملتان۔ سیالکوٹ۔ سکھر۔ مردان۔ فیصل آباد اور سب شہروں کی سڑکوں بازاروں محلّوں میں آزادی کے نعرے گونجتے ہیں۔ سب کی آواز ایک ہے۔ منزل ایک ہے۔ رنگ ایک ہے۔


یہ دن ہم سب کو ایک کردیتا ہے۔ کاش ہمارے راہبر۔ ہمارے سیاستدان بھی اس دن سے سبق سیکھ لیں۔ ایک ایسا دائرہ مقرر کرلیں ۔ قوم کے مفادات کا ۔ ملکی امور کا۔ جہاں کوئی اختلاف نہ ہو۔ اس دائرے میں سب ایک ہوں۔ سب ان کے تحفظ اور دوام کے لئے کام کریں۔ جیسے اس قوم نے ایٹمی طاقت بن کر دکھایا۔ فوجی آمر آئے۔ ایک دوسرے کے مخالف سیاستدان حکومت میں آئے۔ سب نے اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔


اسطرح اب ہماری معیشت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اسے مل جل کر مستحکم کریں۔ آج معیشت ہی طاقت ہے۔ معیشت ہی سیاست ہے۔ معیشت ہی سفارت ہے۔ اقتصادی طور پر کمزور قوموں کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب ایسے ملکوں کو غریب کی جورو سمجھتے ہیں۔ ایسے ملکوں کے پاسپورٹ کی کوئی قدر نہیں رہتی ۔ نئی پارلیمنٹ وجود میں آرہی ہے۔ 14اگست کو یہ عہد کریں کہ یہ پارلیمنٹ اپنے تمام تر سیاسی اختلافات سماجی عدم مساوات کے باوجود کھل کر یہ بحث کرے کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم اور پانی کے ذخیرے کہاں اور کیسے بن سکتے ہیں۔ ملک میں مینو فیکچرنگ کیسے بحال ہوسکتی ہے۔ ملک کی 60فی صد نوجوان آبادی کے مضبوط بازوئوں کو ۔ زرخیز ذہنوں کو ملک کی طاقت کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ جو بھی منصوبے طے کیے جائیں۔ان کی تکمیل میں ہم سب شامل ہوں۔ آنے والی حکومتیں بھی ان کو تسلسل دیں۔


ہم اپنی آزادی کی حفاطت اسی طرح کرسکتے ہیں۔ اندرونی پالیسیوں پر اختلاف کریں۔ احتجاج کریں۔ جلوس نکالیں۔ جلسے منعقد کریں۔ خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر سب یک آواز ہوں۔ لیکن اس ملک کو کمزور نہ کریں۔ اداروں کو مجروح نہ کریں۔ ملک کو بہت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہم دُنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔


ہمارے بلدیاتی ادارے بے اختیار ہیں۔ اس لئے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں آتیں۔ انہیں خود مختاری دیں۔ ہمارے نوجوان ہمارے محنت کش بہت مخلص ہیں۔ ایماندار ہیں۔ انہیں کام کرنے کی آزادی دیں۔ سب ادارے اپنا اپنا کام کریں۔ تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ 71سال پہلے جن بلند عزائم کے لئے آگ اور خون میں سے گزر کر ہم نے یہ الگ ملک حاصل کیا تھا۔ وہ عزائم اب بھی تکمیل کو ترستے ہیں۔شہدا کی روحیں ہم سے بہت سے سوالات کرتی ہیں۔ہم آزاد ہیں۔ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ معاشی طور پر ہم غلامی کے دَور سے گزر رہے ہیں۔ معاشی آزادی اب ہمارا نعرہ ہونا چاہئے۔ چین ہو یا امریکہ ان سے برابری کی حیثیت میں بات ہو۔ یہ ہمارے آقا نہیں بننے چاہئیں۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین