• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کے نوجوانوں کو طعنے دینا بہت آسان کام ہے..... تم محنت نہیں کرتے، سخت سست ہو، کوئی کام تمہیں نہیں آتا، کوئی ہنر تم نہیں جانتے، شارٹ کٹ سے پیسے کمانا چاہتے ہو، سارا دن مردوں کی طرح سوئے رہتے ہو، آوارہ گردی کرتے ہو، پڑھائی میں دھیان نہیں دیتے، وقت ضائع کرتے ہو، ہر وقت موبائل میں گھسے رہتے ہو، تمہاری صحبت ٹھیک نہیں، باہر سے الا بلا کھاتے رہتے ہو، دین کی فکر ہے نہ دنیا کی، لڑکیوں کے چکر میں رہتے ہو.....یہ طعنے سُن کر مجھے اپنا وقت یاد آ جاتا ہے جب ہمیں بھی ایسے ہی باتیں سننے کو ملتی تھیں اور ان میں سے زیادہ تر درست ہوا کرتی تھیں۔ یہ اسّی کی دہائی تھی، بھارتی فلمیں وی سی آر پر دیکھی جاتی تھیں، گانے ڈیک پر سنے جاتے تھے اور واک مین اُن دنوں فیشن کی نشانی سمجھا جاتا تھا، امیر لڑکے واک مین پینٹ میں اُڑس کر کانوں میں ہیڈ فون لگا کر رکھتے تھے اور ہم ایسے انہیں حسرت سے دیکھتے تھے۔ اسّی کی پوری دہائی اسکول میں گزری، یہ وہ دور تھا جب سردیاں آتے ہی ہماری جان نکل جاتی تھی، شدید سردی میں نیکر پہننا یونیفارم میں شامل تھا، البتہ چھٹی جماعت کے بعد نیکر کی جگہ پینٹ لے لیتی تھی، ہم سوچا کرتے تھے کہ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا جب اِس نیکر سے جان چھوٹے گی اور ہم بھی شان سے پینٹ پہن کر اسکول جایا کریں گے۔ پانچویں جماعت کے بچوں کی چھٹی بھی آدھ گھنٹہ پہلے ہو جایا کرتی تھی، چھٹی کے بعد ہم دیکھتے کہ بڑے لڑکے اب بھی کلاسوں میں بیٹھے پڑھ رہے ہیں تو سوچتے کہ یقیناً یہ زیادہ اہم اور سیریس کام کر رہے ہوں گے کیونکہ یہ بڑے ہو چکے ہیں، نہ جانے ہم اتنے بڑے کب ہوں گے۔ پانچویں جماعت تک بچوں کو پین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، ہم سارا کام پنسل سے کرتے تھے اور اُن بڑے بچوں کو دیکھ کر رشک کرتے تھے جو پین استعمال کرتے تھے۔ بالآخر ایک دن ہم بھی سینئر سیکشن میں داخل ہو گئے، پینٹ شرٹ اور کوٹ یونیفارم بن گیا اور ہاتھ میں پین آ گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے جب ہم نے پہلے دن پین استعمال کیا تو ہر لڑکے نے اپنے ہاتھ سیاہی سے بھرلئے اور شیخی بھگاری کہ یار آج پین سے لکھا ہے اس لئے یہ حال ہو گیا ہے۔ اُن دنوں ہاتھوں کی سیاہی پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا ایک دوسرے کے چہرے پر سیاہی نہیں ملی جاتی تھی۔ سینئر سیکشن کا شوق جلد ہی اتر گیا، چھٹی دیر سے ہونے لگی، پڑھائی مشکل ہو گئی، میٹرک کا امتحان اُس وقت اکٹھا ہوتا تھا اِس لئے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کو ایک ساتھ ہضم کرنا پڑا، ریاضی قدرے دلچسپ لگتی تھی مگر لڑکوں میں یہ کہنا فیشن تھا کہ میتھ کا پیپر سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اسکول کا سینئر سیکشن عذاب لگنے لگا، ہم دعائیں مانگنے لگے کہ کب اسکول سے جان چھوٹے گی اور ہم کالج جائیں گے۔


کالج کے متعلق ہم نے فلموں میں دیکھ رکھا تھا کہ وہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں، اسکول کی طر ح بستے گردن میں لٹکا کر جانا نہیں پڑتا، لڑکوں کے ہاتھ میں ایک دو کتابیں ہوتی ہیں اور ٹائم ٹیبل کچھ ایسا ہوتا ہے کہ روزانہ بس ایک آدھ کلاس ہی ہوتی ہے، لڑکیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے کالج گزر جاتا ہے۔ کالج میں داخلے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔ کالج کی ایف ایس سی اور اسکول کی پڑھائی میں چنداں فرق نہیں تھا، وہی صبح سے دوپہر تک کلاسیں، وہی بھاری بھرکم کتابیں اور خشک ترین لیکچرز۔ مخلوط تعلیم صرف ایم اے میں تھی۔ ایک فرق البتہ یہ پڑا کہ ہماری کلاسیں اسکول کی طرح ایک ہی کمرے میں نہیں ہوتی تھیں، ایک کمرے سے اٹھ کر دوسرے میں جانا پڑتا تھا۔ بی اے میں پہنچ کر کچھ سکھ کا سانس آیا اور مجھے پہلی مرتبہ لگا کہ میں اسکول سے نکل کر کالج میں آیا ہوں۔ گورنمنٹ کالج میں ہم لڑکوں کی گفتگو کا زیادہ تر وقت ہنڈا اور کاواساکی کے تقابلی جائزوں، ہال روڈ سے اپنی پسند کا سستا ڈیک بنوانے کے طریقوں، باڈی بلڈنگ کی افادیت اور ایم اے کی لڑکیوں کے حسن کے نمبر لگانے میں گزرتا تھا، اس کے بعد جو پانچ سات فیصد وقت بچتا اُس میں ہم کبھی کبھار اُن مضامین کے بارے میں بھی بات کر لیتے جنہیں پڑھنے کی نیت سے ہم نے کالج میں داخلہ لے رکھا تھا۔


پھر میں کالج سے بھی بور ہو گیا۔ سوچا کہ اگر زندگی میں یونیورسٹی میں نہ پڑھا تو کچھ بھی نہ کیا، گورنمنٹ کالج میں چار سال گزارنے کے بعد فیصلہ کیاکہ اب یونیورسٹی کا مزا بھی چکھنا چاہئے، یہی سوچ کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لے لیا اور اگلے دو برس حقیقتاً ایسے گزارے جیسے فلموں میں دیکھے تھے۔ اس تمام عرصے میں ذاتی خواہشات کی تکمیل بھی ہوتی رہی، اسکول میں میرے پاس سائیکل ہوا کرتی تھی اور میں سوچا کرتا تھا کہ کب وہ دن آئے گا جب میرے پاس موٹرسائیکل ہو گی، میں اُن لڑکوں کو دنیا کی خوش قسمت ترین مخلوق سمجھتا تھا جن کے پاس ذاتی موٹرسائیکل ہوتی تھی جسے وہ کِک مار کر جہاں چاہے جا سکتے تھے۔ بی اے میں مجھے والد صاحب نے موٹرسائیکل لے دی اور یوں میں اپنی نظروں میں دنیا کا خوش قسمت ترین شخص بن گیا۔ سخت سردیوں میں البتہ مجھے خوش قسمتی کی اِس خودساختہ رینکنگ پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پیش آئی اور میں نے دل میں سوچا کہ وہ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے اور وہ اُس میں چابی گھما کر جب چاہیں سٹارٹ کرکے کہیں بھی جا سکتے ہیں، سردی گرمی کی پروا کئے بغیر۔ پھر وہ دن بھی آیا جب میں نے اپنی گاڑی خریدی اور اب یہ حال ہے کہ ڈرائیور کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ گاڑی چلانا بھی مصیبت لگتا ہے۔


بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی۔ اسّی کی دہائی میں اسکول میں پڑھتے ہوئے ہمیں سب کچھ نارمل لگتا تھا، ہم جنرل ضیا کے مارشل لا میں پلے بڑھے تھے، ایک پی ٹی وی دیکھ کر جوانی میں داخل ہوئے تھے اور اخبارات میں یک طرفہ بیانیہ پڑھ کر ہماری ذہنی نشو و نما ہوئی تھی، ہمیں لگتا تھا کہ دنیا ایسی ہی ہوتی ہے جیسی ہم نے پائی ہے۔ مگر نوّے کی دہائی میں جب کالج کا منہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ دنیا میں جمہوریت نام کا ایک نظام بھی ہوا کرتا ہے، ہم نے اِس کا ذائقہ چکھا، کڑوا محسوس ہوا، ہم نے برا سا منہ بنا کر کچھ پی لیا اور باقی تھوک دیا۔آج کل کے نوجوانوں کو طعنے دیتے وقت ہم اپنا وقت بھو ل جاتے ہیں، یہ نوجوان سن 2000کے بعد کی پیدائش ہیں، مارشل لا میں انہوں نے پرورش پائی ،سیاست ان کے نزدیک قابل نفرت جرم ہے اور ٹی وی اِن کے لئے وہ ذریعہ ہے جو انہیں خود کش دھماکوں اور کرپشن کی خبریں سناتا ہے۔سوجو کچھ آج کل ہو رہا ہے یہ اِن نوجوانوں کو نارمل لگتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہماری نسل کے نوجوانوں کو اسّی اور نوّے کی دہائی میں نارمل لگتا تھا۔المیہ مگر یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے اسّی کی دہائی میں بویا وہ بعد کی تین دہائیوں تک کاٹا اور جو کچھ ہم آج بو رہے ہیں وہ نہ جانے ہماری اگلی کتنی نسلیں کاٹیں گی۔بظاہر ہم نے سائیکل سے گاڑی تک کا سفر طے کر لیا ہے مگرمصیبت یہ ہے کہ اب گاڑی چلانے کی ہم میں ہمت نہیں ۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین