• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن۔18کے نتائج کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع ترقبولیت کے بعد مستحکم ہوتے جمہوری عمل میں حکومت سازی کا عمل جاری و ساری ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس 18اگست کو طلب کرلیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لئے جو پارلیمانی اتحاد بننے تھے بن گئے۔ اپوزیشن جماعتوں کا بھی، جس کی پارلیمانی جسامت حکومتی اتحاد کے مقابل قدرے ہی کم ہے، تاہم متحدہ اپوزیشن کی چار جماعتوں کے سربراہ، مولانا فضل الرحمن ، سراج الحق، اسفند یار اور محمود اچکزئی انتخابی عمل میں عوامی نمائندگی کے حق سے محروم ہوگئے۔ متضاد الخیال جماعتوں کا اتحاد پارلیمانی اعداد وشمار کے حوالے سے اچھا خاصا بڑا ہونے کے باوجود کتنا کمزور ہے؟ اس کا اندازہ انتخابی دھاندلی کے الزام پر اپوزیشن اتحاد کے احتجاجی مظاہرے کی کیفیت سے ہوگیا جو فقط احتجاج برائے احتجاج تھا۔ سب سے بڑی پارلیمانی اپوزیشن پارٹی، ن لیگ کے نئے سربراہ ش سے شہباز شریف تو’’موسم کی خرابی‘‘ کے باعث اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں شریک ہی نہ ہوئے۔ یوں بھی اتحادی قائد ہوتے ہوئے شہباز صاحب کا احتجاجی لہجہ احتجاجی ساتھی رہنمائوں سے متضاد اور دھیما ہے۔ اس طرح جاری جمہوری عمل میں حکومتیں بننے سے پہلے ہی متحدہ اپوزیشن تو وجود میں آگئی جو ابھی سے ہی اپنا احتجاج کا آئینی حق بھی استعمال کررہی ہے، لیکن ہے ڈھیلا ڈھالا ہی کہ انتخابی نتائج کی عوامی اور عالمی قبولیت بلند درجے پرہے، تاہم الیکشن کمیشن کی غلطیوں پر اپوزیشن کا بھڑاس نکالنا بنتا تو ہے۔


جہاں تک پی پی کا تعلق ہے، اس کا جمہوری جذبہ مسلمہ ہے۔ وہ متحدہ اپوزیشن اتحادمیں شامل تو ہے لیکن وہ سڑکوں چوکوں سے زیادہ حکمراں جماعت بننے والی پی ٹی آئی کو ایوان میں پارلیمانی انداز سے نپٹنے کی طرف زیادہ مائل ہے۔ شاید پیپلز پارٹی نے الیکشن70میں فقط مغربی پاکستان میں ہی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے پر’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کے تباہ کن نعرے کے المناک نتائج سے جمہوریت کو پارلیمان سے ہی چلانے کا سبق سیکھ لیا ہے، جو قابل قدر اور سب جماعتوں کے لئے قابل تقلید ہے۔رہا الیکشن کمیشن، عین ڈی ڈے پر نئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں ناکامی اور کچھ پروسیجرل خامیوں پر پی ٹی آئی سمیت تمام ہی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی شدید تنقید کے بعد اب سرگرم ہو کر کفارہ ادا تو کررہا ہے۔ چلو! اس فوری ازالے، سب سے بڑھ کر امن عامہ کو یقینی بنانے کے لئے ملک بھر کے پولنگ ا سٹیشنز پر فوجی جوانوں کےمحدود آئینی فرض کی ادائیگی الیکشن کا عوام میں اعتماد قائم کرنے میں بہت کار آمد ثابت ہوئی جس کا اعتراف عالمی غیر جانبدار مانیٹرنگ ٹیمز نے بھی کیا اور بحیثیت مجموعی پولنگ پراسس کو پہلے سے بہتر قرار دیا۔


جہاں تک مولانا، اچکزئی اورا سفند یار کے واویلے کا تعلق ہے، وہ یہ یقین کرکے کہ اپنی انتخابی شکست کے زخم پر مرہم رکھ سکتے ہیں کہ’’اگر ان کے اور ن لیگ کے پروپیگنڈے کے مطابق الیکشن ڈیزائنڈ ہوتے تو جو پاپڑ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کے لئے بیلنے پڑے ہیں، وہ نہ بیلتے، نہ ہی جتنے کم پارلیمانی مارجن پر عمران حکومت بننے والی ہے، وہ اتنے کم پر بنتی۔ ڈیزائنرز تو ایسی مشکل پیدا کرنے کاخطرہ مول نہ لیتے اور کرنا ہی ہوتا تو آسانی سے تحریک انصاف کے لئے حکومت سازی کا کھلا ڈلا اہتمام کرتے، جیسا کہ ہماری روایتی انتخابی تاریخ میں ہوتارہا ہے۔


حضور!وہ زمانے گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑاتے تھے۔


اب تو وزیر اعظم بننے کے لئے اسٹیٹس کو کی دیوہیکل طاقت سے بار بار ٹکرانا پڑتا ہے اور خان اعظم عمران خان کی سی باکمال جہد مسلسل درکار ہے۔ نتیجہ آج اسٹیٹس کو کی طاقت کا سرچشمہ مال حرام ، تھانے ،کچہریوں اور جیل کی ہوا کھلاتا ہے۔ یہ تو تھا بعد از انتخاب ظہور پذیر تابناک پاکستان کی صورتحال کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی امکانی کابینہ کی تشکیل کا موضوع کہ کس کس صوبے میں کون کون وزیر اعلیٰ اور وفاق میںکس کس کو کون کون سی وزارت کے وزیر بنائے جانے کا امکان ہے؟ بڑا خبری موضوع ہے لیکن اس روایتی مرحلے پر ایک بالکل منفرد موضوع بھی خبری موضوع بنا ہے جو تبدیلی کے علمبردار ہمارے غالب ہوتے رہنما نے وزیر اعظم بننے سے پہلے میڈیا، سیاسی حلقوں اور بیوروکریسی کو بحث، خبروں اور تجزیوں کے لئے دیا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا بھی اس پر سرگرم ہے۔ یہ ہے عمران خان کےوزیر اعظم بننے کے بعد، پرائم منسٹر ہائوس کا اسلام آباد کے ’’پنجاب ہائوس‘‘ میں منتقل ہوجانا۔ اس کا اعلان انہوں نے انتخابی نتائج سے یہ واضح ہونے پر کہ اب وہ ہی وزیر اعظم بنیں گے، اپنی پہاڑی رہائش گاہ بنی گالا پر بذریعہ میڈیا عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کیا تھا۔ خان صاحب کا یہ خطاب فاتحانہ سے زیادہ ان کے شکر و فکر کا عکاس تھا، جس میں انہوں نے اپنے بہت پہلے ظاہر کئے گئے اس ارادے کو دہرایا کہ وہ بطور وزیر اعظم، پی ایم ہائوس میں نہیں رہیں گے جو اتنا پرتعیش ہے کہ انہیں پاکستانی عوام کی موجودہ حالت زار میں وہاں رہتے ہوئے شرم آئے گی۔ اتنی نیک سوچ اورفتح کے خطاب میں اتنی عاجزی سے خان نے جو احوال دل بیان کیا اس کی کتنی سیاسی طاقت ہے؟ خود خان اور بڑے بڑے روایتی تجزیہ نگار اس کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ گلی محلے اور گائوں گوٹھ میں جس نے بلے پر مہر نہیں بھی لگائی، وہ دل سےقائل ہوگیاہے،’’واقعی خان کو اب تو باری ملنی ہی چاہئے‘‘۔ جب خان حلف اٹھانے کے بعد پی ایم ہائوس کی بجائے عملاً پنجاب ہائوس یا کسی اور سادہ اور محفوظ مقام پر مرکز حکمرانی بنائے گا تو یہ عوام سے گہری محبت رکھنے والے ترقی پذیر دنیا کے حکمراں کا عالمگیر پیغام ہوگا۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ اتنے بڑے اور پرتعیش ناصرف پی ایم ہائوس بلکہ صوبوں کے گورنر ہائوس بھی مفاد عامہ کے لئے وقف کردئیے جائیں۔


اس پر جو بحث شروع ہوئی ہے اس کا اہم ترین نکتہ’’وزیر اعظم کی سیکورٹی‘‘ کا ہے جو ناچیز کی رائے کے مطابق اولین قومی ضرورت بن گئی ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے روگ کی نشاندہی کہ’’مطلوب قومی قیادت کی عدم موجودگی‘‘ عشروں سے ہورہی ہے جو اللہ نے اپنیتدبیر سے اور عوام نے سمجھ کر پوری کرلی۔ وگرنہ تو نوبت قانونی عدالتوں کے مقابل’’عوامی عدالتیں‘‘ قائم کرنے کے ارادوں نہیں منصوبوں تک پہنچ گئی تھی۔


اس ضمن میں ناچیز کی تجویز ہے کہ اس معاملے کو فقط عمران خان کی ذاتی مرضی اورنیک ارادے پر نہ چھوڑا جائے، اس کا فورم پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کو ہوناچاہئے۔ جو میری اس تجویز پر حلف اٹھانے سے پہلے غور و خوض کرکے حتمی فیصلہ کرے۔ پورا یقین ہے کہ عمران صاحب واقعی اتنے بڑے اور پرتعیش پی ایم ہائوس میں شرم اور بوجھل ضمیر سے ڈسٹرب رہیں گے۔ تو، اس حوالے سے جو بھی تبدیلی لائی جائے اس میں دو اہم ترین ضرورتیں، عمران خان کی شخصیت اور قومی سوچ کو عمل میں ڈھالنے کے علاوہ قومی قیادت کی ناگزیر حفاظت کو یقینی بنانا شامل ہے۔


اس کے بعد سپرد خدا، پی ایم ہائوس کا غیر ملکی مہمانوں کی آمد اورعوامی نمائندگی کا مرکز و محور ہونے کے حوالے سے باوقار مگر سادہ ہونا بھی ضروری ہے۔ ریکارڈڈ ہے کہ نئی حکومتیں بننے پر ’’آئین نو‘‘ میں’’گڈ گورننس‘‘ کو جملہ ملکی و قومی مسائل کا حل قرار دیتے، یہ عظیم قومی ہدف حاصل کرنے کی نشاندہی کی گئی ،گورننس کو جدید علوم اورٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیاجائے۔ اس کی راہیں بھی بتائیں لیکن اسٹیٹس کو کی حکومتوں کو تو یہ تجویز دینا تو بس’’وماعلینا الالبلاغ‘‘ ہی تھا، وقت آگیا ہے کہ اس کا عملی اور دنیا بھر میں انتہائی عملی مظاہرہ ہوجائے۔


ایک مخصوص علمی سطح کے تمام تعلیم یافتگان جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا اوپن سیکرٹ آر اینڈ ڈی(ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ) ہے، جو ترقی کے ہر سیکٹر کی مشترکہ اصطلاح ہے اور اس کی فلاسفی تین الفاظ ( دماغ سوزی برین اسٹارمنگ) کھوج(ریسرچ)اور اس کی روشنی میں ڈیویلپمنٹ (ترقی و تبدیلی) کے گرد گھومتی ہے۔


سو، کیوں نہ موجودہ پی ایم ہائوس کے ایک پورشن کو وزیر اعظم ہائوس ہی رہنے دیا جائے اور اس کے دو تہائی حصے کو ہروزارت کے ایک تھنک ٹینک، ریسرچ اور ترقی کے منصوبے تیار کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔یعنی یہ صرف پیغام ہی نہیں ہوگا کہ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں تبدیلی کا آغاز’’گورننس اور آر اینڈ ڈی‘‘ کے ملاپ سے عملاً ہورہا ہے بلکہ اس طرح قومی منتخب قیادت کی سیکورٹی کا وہ سوال بھی پیدا نہیں ہوگا جو ہورہا ہے۔ آج ہمارا وزیر اعظم ہائوس دنیا کامنفرد مرکز اقتدار بنے گا۔ اس حوالے سے ناچیز’’ پی ایم ہائوس پلس آر اینڈ ڈی‘‘ کی تمام عملیات اور جزئیات پر ایکPresentationتیار کرچکا ہے۔ اس سے آگاہی، پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگز یکٹو کمیٹی کو پرائم منسٹر ہائوس کہاں؟ کی بحث پر بہتر اور وسیع تر مفادات کے مطابق فیصلہ کرنے میں مدد گار ہوگی۔ وماعلینا الالبلاغ

تازہ ترین