• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کو توقع سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ کئی اضلاع میں تو مسلم لیگ ن کو مکمل کلین سوئپ کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔اطلاعات ہیں کہ جنوبی پنجاب کے عوام نے تحریک انصاف کو صوبے کے نام پر ووٹ دئیے ہیں،جبکہ کچھ حلقوں میں مسلم لیگ ن کے غلط فیصلے بھی تحریک انصاف کے کام آئے ہیں۔ انتخابات میںدھاندلی کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی شکایات اپنی جگہ مگر کچھ حلقوں میں مسلم لیگ ن کی شکست کمزور پارٹی امیدواروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔بہت سے حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے عین وقت پر جیپ کی سواری کو ترجیح دے کر شیر کا صفایا کروایا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی بعض حلقوں میں کمزور امیدواروں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایسے حلقوں سے زیادہ تر مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور اب وہی آزاد امیدوار ریوڑ کی صورت میں تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔مگر تمام باتوں سے قطع نظر اب تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔لیکن میری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف ایسا کوئی بھی اقدام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور جنوبی پنجاب صوبے کا خواب اس مرتبہ بھی شرمندہ تعبیر نہیںہوگا۔


جنوبی پنجاب سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو متعدد حلقوں میں توقع کے مطابق نتائج آئے ہیں۔پنجاب کے آخری ضلع راجن پور سے آغاز کرتے ہیں۔روجھان مزاری کی سیٹ پر میر بلخ شیر مزاری کاخاندان الیکشن لڑ رہا تھا جبکہ ان کے مدمقابل عاطف مزاری اور خضر مزاری تھے۔خضر مزاری نئے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تھے،جبکہ عاطف مزاری سابق ڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی شوکت مزاری کے بھتیجے ہیں اور دس سال سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے آرہے ہیں۔اس حلقے میں سردار نصر اللہ دریشک کا بھی کافی ووٹ بینک ہے۔مزاری اور دریشک خاندان مل کر یہاں سے الیکشن لڑ رہے تھے ۔اس لئے ان دونوں حلقوں سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہرانے میںکوئی مشکل پیش نہیں آئی۔جبکہ راجن پور کی نشست سے سردار نصراللہ دریشک قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار تھے۔عوامی رابطہ اور شرافت کی وجہ سے نصر اللہ دریشک راجن پور میں مقبول ہیں۔نصر اللہ دریشک راجن پور کی سیاست کا اہم ستون تصور کئے جاتے ہیں۔جبکہ ا ن کے پنجاب کے دیگر حلقوں میں بھی گہرے تعلقات ہیں اور جوڑ توڑکی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی مانے جاتے ہیں۔نصر اللہ دریشک کو اس مرتبہ اپنے قبیلے کی بھی بھرپور سپورٹ حاصل تھی اور ان کی قوم کے تمام افراد نصر اللہ دریشک کی چھتری کے نیچے الیکشن لڑرہے تھے۔ نصر اللہ دریشک قومی اسمبلی اور چھ سال تک پنجاب کے وزیر خزانہ رہنے والے ان کے بیٹے حسنین بہادر دریشک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے اور نصر اللہ دریشک کی وجہ سے ہی ان کے قبیلے کے وہ افرادبھی الیکشن میں کامیاب ہوئے جنہوں نے کبھی یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیتا تھا۔اسی طرح راجن پور کی قومی اسمبلی کی تیسری نشست پر جعفر لغاری کی کامیابی میں بھی نصر اللہ دریشک نے اہم کردار ادا کیا۔نصر اللہ دریشک گزشتہ دو انتخابات سے یہاں سے امیدوار ہیں۔مگر اس مرتبہ انہوں نے جعفر لغاری کی مکمل سپورٹ کی اور یوں جعفر لغاری یہاں سے جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔مسلم لیگ ن کو راجن پور سے جھٹکا گورچانی خاندان نے دیا۔انہوں نے عین وقت پر مسلم لیگ ن کی ٹکٹیں واپس کردیں اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔حالانکہ گورچانی خاندان کو ڈپٹی اسپیکر جیسا اہم عہدہ بھی مسلم لیگ ن نے دیا تھا۔مگر گورچانی خاندان جیپ میں سوار ہوگیا لیکن جیپ بھی انہیں یہاں سے نہ جتوا سکی۔جبکہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے انتخابی نتائج بھی توقع کے عین مطابق رہے۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو جس نشست سے لغاری خاندان نے الیکشن لڑنے کی دعوت دی۔اس نشست پر لغاری خاندان کے اندر شدید اختلاف تھا۔بلکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے پر لڑنے والے ایک امیدوار نے مجھے ذاتی طور پر اپنی ناراضی کا بتایا تھا۔جبکہ اس حلقے میں لغاری خاندان نے ویسی انتخابی مہم نہیں چلائی ،جیسی چلانی چاہئے تھی۔اویس لغاری کا پوری انتخابی مہم کے دوران سارا زور ڈیر ہ غازی خان شہر کی نشست پر رہا اور بالآخر شہر کی نشست سے بھی اویس لغاری ہار گئے۔اس حلقے سے تحریک انصاف کی زرتاج گل کامیاب ہوئیں اور انتخابات سے قبل تمام سروے بھی انہی کی کامیابی کی نوید سنارہے تھے۔لغاری خاندان کو توقع تھی کہ شاید سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ڈیرہ غازی خان الیکشن لڑنے سے ان کی کمزور سیٹیں بھی نکل جائیں گی اور یوں ضمنی انتخابات میں اپنے خاندان کے مزید امیدواروں کو کامیاب کروالیں گے۔مگر شہباز شریف کے حلقے میں موثر انتخابی مہم نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی یہاں سے کامیاب نہ ہوسکے۔ڈیر ہ غازی خان سے سب سے اہم کامیابی آزاد امیدوار محمد حنیف پتافی نے حاصل کی۔حنیف پتافی سماجی کارکن اور انتہائی شریف آدمی ہیں۔ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر شفیق پتافی گزشتہ کئی دہائیوں سے ڈیرہ غازی خان میں رفاہی ادارے چلارہے ہیں۔حنیف پتافی نے ریکارڈ 35ہزار ووٹ لے کر آزاد حیثیت میں لڑنے والے ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے دوست محمد اور تحریک انصاف کی امیدوار کو بھی پچھا ڑ دیا۔مسلم لیگ ن کے امیدوار علیم شاہ چندہ ہزار ووٹ لے کر یہاں پر بہت پیچھے رہے۔کھوسہ خاندان کو بڑے اپ سیٹ کا سامنا رہا۔ذوالفقار کھوسہ اور ان کے بیٹے سیف الدین کھوسہ تو تحریک انصاف کے ٹکٹوں کے باوجود آزاد امیدواروں سے ہار گئے ،جبکہ ان کے بیٹے دوست کھوسہ کا آزاد حیثیت میں تحریک انصاف کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑنے کا بھی انہیں نقصان ہوا۔اگر کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ڈیرہ غازی خان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کھوسہ اور لغاری خاندان ضلع کی سیاست سے باہر ہوگئے ہیں۔اسی طرح مظفر گڑھ میں تحریک انصاف کے غلط فیصلوں نے انہیں وہاں سے ہروایا،لوگوں نے مصطفی کھر جیسے امیدواروں کو مکمل مسترد کردیا۔لیہ میں مسلم لیگ ن کے غلط فیصلوں نے شکست کی راہ ہموار کی۔احمد علی اولکھ جیسے شریف آدمی کو نظر انداز کیا گیا اور وہ آزاد الیکشن جیت گیا۔خانیوال میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن سے پانچ سال تک فائدے اٹھانے والے رضا حیات ہراج کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دیا۔مگر انہیں فخر امام نے آزاد الیکشن لڑ کر بھاری اکثریت سے ہرا دیا۔فخر امام 2013میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے مگر بعد میں مسلم لیگ ن نے فخر امام پر دروازے بند کرکے رضا حیات ہراج کو پارٹی میں شامل کرلیا تھا اور بعد میں رضا حیات بھی مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ گئے۔یوں تمام حلقوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک کالم میں تفصیلات بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی تمام شکایات سے ہٹ کر بعض حلقوں میں عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے ۔ بہت سے حلقوں میں مسلم لیگ ن کی ناکامی کی وجہ غلط فیصلے تھے۔جسے تسلیم کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین