• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بدعنوانی ایک ناسور بن چکی ہے۔ میگااسکینڈلزسامنے آرہے ہیں۔ کرپشن کے بڑے مقدمات کو ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق جلد ازجلد منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ملک میں کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے۔چیئرمین نیب کی طرف سے کرپشن کیسزکو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کاعزم حوصلہ افزا ہے۔قوم منتظر ہے کہ پاناما لیکس میں بے نقاب ہونے والے دیگر436پاکستانیوں ، کرپٹ عناصراورکمیشن مافیا کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟۔ ملک وقوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ نااہل افراد کی تعیناتیاں ،کرپشن،اقرباپروری اور موروثیت ہے،ان سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ احتساب کانظام بلاتفریق چلنا چاہئے اور اس سے سیاسی انتقام کی بو نہیں آنی چاہئے۔ملک کو کرپٹ افراد نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتناکسی نے نہیں پہنچایا۔وقت آگیا ہے کہ ان کرپٹ عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، ان کاتعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو،انہیں فی الفورگرفتار کر کے لوٹی گئی قومی دولت کی پائی پائی وصول کی جائے۔طرفا تماشا یہ ہے کہ70برسوں سے مٹھی بھراشرافیہ نے ملک وقوم کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیاہے اور عوام کے جذبات کو مجروح کیاہے۔لوگوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ملکی استحکام کیلئے سب کو مل کر کام کرناہوگا۔محاذآرائی کی سیاست کسی کے مفاد میںنہیںہے۔جمہوریت کے تسلسل کو جاری رہنا چاہئے۔ہمیںایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگاکہ جن سے جمہوریت کو نقصان پہنچے ۔تحریک انصاف کی نئی متوقع حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔گزشتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اس وقت ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ماضی میں ریلیف کے نام پر عوام کومحض دھوکہ دیاجاتارہاہے۔گزشتہ حکمرانوں نے اگر عوام کیلئے کچھ کام کیاہوتا تو آج انتخابات کے بعد کی صورتحال ان کیلئے اتنی بری نہ ہوتی۔پاکستان کسی بھی قسم کے سیاسی عدم استحکام،انتشار اور افراتفری کامتحمل نہیں ہوسکتا۔سیاسی محاذ آرائی ملک وقوم کو بہت پیچھے لے جائے گی۔گلگت بلتستان میں اسکولوں کوجلانے کا حالیہ افسوسناک واقعہ بھی تشویش ناک اور قابل مذمت ہے۔ایک سازش کے تحت درس گاہوں کونشانہ بنایا گیا ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب ہوسکے۔اسکولوں کو جلانے کے واقعات کی تحقیقات کی جائیں اور اس میں ملوث افراد کو جلدازجلدگرفتارکرکے قرارواقعی سزادی جائے۔


پا کستان ماضی کے حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی بدولت مسائلستان بن چکا ہے ۔لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پھر سے سراٹھانے لگاہے۔لاہور،کراچی سمیت ملک بھر میں کئی کئی گھنٹوں کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن بنادی ہے۔بے روزگاری کے باعث پڑھے لکھے نوجوان در درکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔نوجوان طبقہ ملکی حالات سے مایوس ہوچکا ہے اور بیرون ممالک کارخ کررہا ہے۔ہر سال آٹھ ہزاراعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح4برس کی بلند ترین سطح پر آچکی ہے۔پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیاخوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ لمحہ فکریہ ہے۔محکمہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق سال2018کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ہو ا جس کی وجہ سے زرعی اجناس کے نرخ بڑھ گئے ہیں اور کسانوں کو فصلوں کی اصل لاگت ملنا بھی مشکل ہوچکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والافردکسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملک میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جودرست سمت میں گامزن ہو۔سیاسی بنیادوں اور خلاف میرٹ بھرتیوں کے باعث منافع بخش ادارے قومی خزانے پربوجھ بن چکے ہیں۔رہی سہی کسر کرپٹ افراد کی کارستانیوں نے پوری کردی ہے۔ملک میں کرپشن کی انتہاہوچکی ہے۔نیب کی جانب سے بڑے پیمانے پر اداروں اور کرپٹ افراد کے خلاف انکوائریاں شروع کرنے کااقدام خوش آئند ہے۔کرپشن اور کرپٹ افراد ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔نئی بننے والی حکومت کو آئی ایم ایف اورورلڈ بنک سے نجات حاصل کرنے کیلئے ملکی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ماضی کے حکمرانوں نے غیر ملکی قرضوں کے پہاڑکھڑے کردیئے ہیں۔اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے کامقروض ہے۔ پاکستان ایک آزاد،خودمختار ریاست ہے۔امریکی ڈکٹیشن کسی بھی صورت قابل قبول نہیںہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نوتشکیل دیاجائے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جو22کروڑ عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی ہوں۔ اگردنیامیں ہم نے باعزت مقام حاصل کرناہے تو ہمیں کشکول توڑناہوگا۔ امریکہ کی طرف سے آئی ایم ایف پر دبائو ڈالنا کہ پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج نہ دیاجائے ،تشویش ناک امر ہے۔اب یہ ثابت ہوگیاہے کہ عالمی ادارہ امریکی ڈکٹیشن پر کام کرتاہے۔دنیا میں غربت کاخاتمہ اور انسانی معیارزندگی کوبلند کرنا اس کامطمح نظر نہیںہے ۔ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ ایسے باصلاحیت اور باکردار محب وطن افراد کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہوں اور حقیقی معنوں میں ملک وقوم کی فلاح وبہبود کیلئے اپنی تمام ترصلاحیتوں کوبروئے کارلائیں۔عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم معاشی خود انحصاری کی راہ اختیار کریں۔تحریک انصاف نے تبدیلی کانعرہ لگایاتھا،اب اس کو غیر ملکی قرضوں سے قوم کی جان چھڑاناہوگی۔ عمران خان نے قوم سے وعدے کیے تھے کہ تحریک انصاف ملک میں ترقی وخوشحالی لائے گی ۔اب قوم ان دعوئوں کی تکمیل چاہتی ہے۔کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اس کو ختم کیے بغیر ملکی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔بیرونی دشمن قوتیں چاروں اطراف سے پاکستان پرحملہ آور ہیں۔ان سے نمٹنے کیلئے ازحدضروری ہے کہ اتحادویکجہتی کامظاہرہ کیاجائے۔ نائن الیون کے بعددہشتگردی کے عفریت نے ملک وقوم کو شدید متاثر کیا ہے۔تحریک انصاف کی نئی آنے والی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کاازسرنوجائزہ لینا ہوگااور جن پالیسیوں کا تسلسل جنرل (ر) پرویز مشرف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے جاری رکھا ان کو بدلنا ہوگا۔ پرویزمشرف کی بزدلانہ پالیسیو ں کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔نام نہادامریکی جنگ میں پاکستان کے70ہزار افراد شہید اور سواسوارب ڈالر کا معاشی دھچکا برداشت کرنا پڑاہے۔ہم سب کو مل کر دنیا میں پاکستان کے تشخص کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کااہم ترین جزوہے اس کوکسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔آئندہ نئی بننے والی حکومت خارجہ پالیسی کو ازسرنوتشکیل دیتے ہوئے امریکہ سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرے۔دنیامیں ملک وقوم کاوقار بلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کومضبوط بنایاجائے۔مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ہندوستان ریاستی جبراور ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے تین کروڑ کشمیری عوام پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی کشمیر کے بارے میں حالیہ رپورٹ نے حقیقت حال واضح کردی ہے کہ: ـ اب کوئی کشمیری بھارت کا حصہ نہیں بننا چاہتا،کلچر آف ڈیتھ پورے بھارت میں پھیل رہاہے۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ عالمی دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری اداکرتاتوآج مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔پاکستان بھارت کے درمیان سب سے بڑامسئلہ جموں وکشمیر ہے،اس کے حل تک جنوبی ایشیامیں امن قائم نہیں ہوسکتا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین