• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ملک ایک نئے انتخاب کی جانب جا رہا ہے یا کوئی بڑا سینڈی جیسا طوفان اپنی خوفناک طاقت کو یکجا کرکے راستے میں انتظار کررہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ کچھ لوگوں نے جو حادثاتی طور پر اقتدار میں آگئے تھے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سچ یا جھوٹ بول کر، زور یا زبردستی سے، دھونس یا دھاندلی سے ہم نے تو اپنے 5 سال پورے کرلئے ہیں اور اتنا مال و متاع جمع کرلیا ہے کہ اگر دوبارہ ہمیں موقع نہیں ملا تو کوئی بات نہیں مگر ہم نہ کھیلیں گے اور نہ دوسروں کو کھیلنے دیں گے یعنی ہم نہیں تو کچھ نہیں۔ یہ فیصلہ کرکے کچھ لوگ بڑے مطمئن اور پُرعزم نظر آ رہے ہیں مگر نئے سینڈی اور ایک انتہائی گمبھیر صورت حال بتا رہی ہے کہ طوفان، جنم لے چکے ہیں اور اب اپنے اپنے محور سے نکل کر اپنے ہدف کی جانب بڑھنا شروع کر چکے ہیں۔ اس طوفانی آفت کو زمین سے ٹکرانے میں اب زیادہ دن نہیں لگیں گے بلکہ شاید ایک یا دو ہفتے ہی لگیں اور Landfall ہو جائے یعنی سینڈی زمین سے ٹکرائے اور نیویارک اور نیو جرسی والا تباہ کن منظر ہر طرف نظر آنا شروع ہوجائے۔
میں یہ خطرے کی گھنٹی کیوں بجا رہا ہوں؟ جواب آسان ہے۔ کام کے لوگوں سے بات کرکے اور ان لوگوں کی تحریریں پڑھ کر جو باخبر کہلاتے ہیں یہ تجزیہ کیا ہے، تین مثالیں دوں گا۔ ایک با خبر ایڈیٹر جو ایک اہم ارب پتی کے اخبار میں روز کالم تحریر کرتے ہیں ،فرماتے ہیں کہ ہماری آزاد عدلیہ کے خلاف حکومت اور پی پی پی کے سنجیدہ حلقے ایک درخواست تیار کررہے ہیں کہ ججوں کی بحالی کا جو حکم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دیا تھا اس کو چیلنج کیا جائے یعنی زرداری صاحب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف نیا محاذ کھولنے پر غور فرما رہے ہیں۔ اسی بات کو معزز سیاستدان اور کالم نگار ایاز امیر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک نیا ریفرنس چیف جسٹس کے خلاف تیار ہو رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ پہلے راؤنڈ میں شکست کھانے کے بعد ایک بااثر شخصیت کو دوبارہ کس نے طاقت کے انجکشن لگا کر کھڑا کردیا ہے اور وہ پھر سے اپنے پیسے، تعلقات اور اپنے خریدے ہوئے لوگوں کے ذریعے کیوں اور کیسے میدان میں آ گئے ہیں۔ ان کا اشارہ فوج کی طرف ہے کہ اب شاید فوج ان کو شہہ دے رہی ہے کہ وہ عدلیہ پر وار کریں۔ اسی طرح ایک اور بڑے جغادری کالم نگار جو ہر حکومت کے ساتھ نظر آتے ہیں، چاہے وہ نواز شریف کی ہو، مشرف کی ہو یا زرداری کی اور جن کے گھر ”سسرالیوں“ کے جہیز میں آئی کئی مرسیڈیز گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں، لکھتے ہیں کہ ایک ایسے بڈھے وزیر اعظم کی تلاش ہو رہی ہے جو عبوری حکومت کا سربراہ بن سکے اور پھر دس سال گزار دے یعنی جب نواز شریف کا نمبر آئے تو وہ بھی 70 کے لپیٹے میں آ چکے ہوں اور بڈھے ہوگئے ہوں۔ یہ صاحب جن سے اگر کوئی صحافی سوال پوچھ لے تو وہ ماں بہن کی گالیاں دینے سے نہیں چو کتے، چاہے وہ ریکارڈ ہی ہو رہی ہوں۔ فرماتے ہیں اگلا وزیر اعظم امپورٹڈ معین قریشی یا شوکت عزیز یا مفلوج معراج خالد یا مصطفی جتوئی نہیں ہونا چاہے بلکہ ایک ایسا شخص ہو جس میں ہمت اور جرأت ہو یعنی Guts ہونے ضروری ہیں۔ میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور آگے چل کر بتاتا ہوں کہ کیوں۔
مگر پہلے ان تمام خبروں اور اشاروں کا تجزیہ۔ یہ حقیقت نظر میں رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست ایک ہفتے بعد سماعت کرنی ہے اور خبریں چھپ چکی ہیں کہ فوج میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔ فوج نے ایک وارننگ بھی جاری کردی تھی کہ اگر ادارے اپنے اپنے حلقوں سے باہر نکلے تو ”نقصان“ ہوسکتا ہے۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر لکھتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں گورنر راج لگ سکتا ہے اور ایاز میر کا کہنا ہے کہ الیکشن کے آثار نظر نہیں آ رہے اور حکومت عدلیہ کے زیر نگرانی انتخاب پر بھی تیار نہیں۔ تو یوں لگ رہا ہے کہ زرداری صاحب عدلیہ پر ایک شب خون مارنے جارہے ہیں اور اس مرتبہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ عدلیہ نے فوج کو تنبیہ کر رکھی ہے کہ جنرل کیانی کی چھٹی ہوسکتی ہے۔ فوج نے خبردار کردیا ہے کہ اپنے آئینی کردار سے تجاوز سب کو ”نقصان“ پہنچا سکتا ہے یعنی ملک کے تینوں اہم ستون یا طاقت کے سینئر ایک دوسرے سے خائف ہیں یا اپنے دفاع کی تیاری کرچکے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کون پہلے طبل جنگ بجاتا ہے۔ تاریخیں تو پہلے ہی دی جاچکی ہیں اور اشاروں کنایوں میں سب نے اپنی حکمت عملی بھی بتا دی ہے۔ اس لئے میں نے لکھا کہ نئے سینڈی پاکستان کو ہدف بنانے کو تیار ہیں اور ایک تکونی پاور یا سبقت کی جنگ شروع ہونے کو ہے۔ ہمارے جغادری کالم نگار کہتے ہیں جیتے گا وہی جس کے پاس زیادہ ٹینک یا بکتر بند گاڑیاں ہوں گی یعنی فوج۔ ان کا تجزیہ ایک طرف جمعہ کو کراچی کے علاقوں کا فوجی کمانڈر دورہ کرچکے ہیں اور کراچی کی سب سیاسی پارٹیاں سوائے حکومت کے مطالبہ کرچکی ہیں کہ اس شہر بدقسمت میں فوج کو بلایا جائے۔ تمام کاروباری حلقے اور لیڈر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فوج کے بغیر کراچی ٹھیک نہیں ہوگا اور جنرل نصیر اللہ بابر کی ہر ایک کو یاد آ رہی ہے۔ بلوچستان میں تو پہلے ہی فوج کا کنٹرول ہے چاہے چند سیاسی جوکر اپنا تماشا دکھاتے رہیں کوئٹہ یا اسلام آباد میں۔
اس صورت احوال میں کس کا نقصان ہوگا اور کس کا فائدہ؟ زرداری صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ فوج کے تعاون سے ججوں پر حاوی ہو جائیں گے۔ اگر ججوں نے جنرل کیانی کی چھٹی کردی تو کیا ہوگا۔ پی پی پی والے خوش فہمی میں ہیں کہ مشرف کی طرح کا 12/اکتوبر اب نہیں ہوسکتا اور جنرل کیانی کو ایسے ہی رخصت کر دیا جائے گا جیسے جنرل پیٹریاس گم ہوگئے یا جہانگیر کرامت چلے گئے۔ پی پی پی کے چھوٹے بڑے اہل کاروں کی خوشی قابو میں نہیں آ رہی مگر اندر کے حالات کچھ اور ہی ہیں۔ فخرو بھائی جنہیں الیکشن کا ذمہ سونپا گیا ہے اب بظاہر ہمت پکڑتے نظر آ رہے ہیں اور ابھی تو میچ شروع بھی نہیں ہوا۔ میں نے سنا انہوں نے کسی سے کہا کہ اگلا عبوری وزیراعظم چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہونا چاہئے اس سے کم پر بات نہیں بنے گی۔ جغادری کالم نگار بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر نیا وزیر اعظم بغیر Guts کے ہوا تو انتخاب نہیں ایک ہڑبونگ ہوگا اور کوئی کسی کی بات نہیں سنے گا۔ راستہ کس کا ہموار ہوگا اور ٹینک کس کے پاس ہیں یہ تو واضح ہی ہے۔میرے خیال میں اگلے وزیر اعظم کو چند اہم فیصلے آنے کے چند گھنٹوں یا دنوں میں ہی کرنے ہوں گے۔ سوچا کہ وہ کون سے فیصلے ہوسکتے ہیں تو لسٹ بنتی گئی اور لمبی سے لمبی ہوتی گئی مثلاً یہ معلوم کرنے کے لئے کہ ملک کے انتظامی اور معاشی اور اقتصادی حالات کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم کتنے کھرب در کھرب کی لوٹ مار برداشت کرچکے ہیں، کوئی آسان کام نہیں ہوگا اور اگر یہ صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا تو اصلاح کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہوگا۔ اس لئے جو پہلی لسٹ میرے ذہن میں بنی وہ یہ تھی۔
-1 سارے گورنر، چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، پولیس کے FIA, IG's اور NAB کے سربراہان کو فوری تبدیل کرکے نئے اور غیر جانبدار افسر لگانے ہوں گے۔
-2سارے ان اداروں کے سیاسی وفاداریوں کے بل بوتے پر لگائے گئے سربراہان کو بدلنا ہوگا جن میں PIA، ریلوے، PSO، اسٹیل مل، بینظیر انکم کا ادارہ وغیرہ وغیرہ تاکہ ان اداروں کی اصلی حالت کا اندازہ ہو اور کسی بہتری کی طرف بڑھا جاسکے۔
-3 ان تمام اداروں کی اصلی حالت معلوم کرکے ان تمام لوگوں کے باہر جانے پر فوری پابندی لگائی جائے جو لوٹ مار کرکے بھاگنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ان میں بہت سے حکومت کے ایجنٹ بھی ہیں۔
-4 ان تمام سیاسی سربراہان کو ایک غیر جانبدار اور غیر سیاسی NAB, FIA اور تفتیشی اداروں کے حوالے کیا جائے تاکہ چوری اور لوٹ مار کا پتہ چلے اور اقدامات کئے جاسکیں۔
-5 ایسے دیانتدار اور قابل لوگوں اور افسروں کی فہرست پہلے ہی سے تیار رکھی جائے جن کو اہم عہدوں پر فوری طور پر لگایا جاسکے۔
-6 وہ تمام سیاسی پروگرام اور اسکیموں کو جیسے بینظیر انکم پروگرام، لیپ ٹاپ اسکیم وغیرہ کو معطل کیا جائے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ دھاندلی نہیں کی جا رہی۔
-7 الیکشن کے تمام انتظامات کو فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ کوئی دھاندلی نہ ہو سکے اور وہ تمام فیصلے معطل کئے جائیں جو Pre-poll دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں فوج کے سوا کوئی ادارہ اس کام کو نہیں کرسکتا۔ اب عدلیہ نے الیکشن میں کمیشن کی مدد کرنے کافیصلہ کرلیا ہے جو اچھا ہے مگر عمل درآمد تو فوج ہی کو کرنا ہوگا۔
اگر چند دنوں میں یہ تمام اقدامات نہ کئے گئے تو عبوری حکومت ایک بے بس کٹھ پتلی ہی ثابت ہوگی اور جو نظام ملک میں پچھلے5 سال سے جارہی ہے وہی چلتا رہے گا اور الیکشن پر اگر ہوئے، تو گہرا اثر ہوگا۔ کیا سب لوگ اور قوم وہی چاہتے ہیں جو ان5 سالوں میں ہوچکا اور ایک اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق دو کھرب سے زیادہ لوٹ مار ہو چکی جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔
ان حالات میں الیکشن کرانا تو دور کی بات ہے ملک کو مکمل ڈوبنے سے بچانا پہلی ترجیح (Priority) ہونی چاہئے۔ ملک ہے تو سب کچھ ہے ورنہ آپس میں لڑ کر سب ہی ہار جائیں گے۔ کون آگے آئے گا اس ملک کو بچانے ابھی معلوم نہیں مگر اطلاعات یہ ہیں کہ جن اداروں کی قومی ذمہ داری ہے ملک کی خارجی اور داخلی سلامتی کی حفاظت کرنا وہ تیاری کرکے اپنے Options بنا کر آخری آرڈر کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کیا ان Options میں سے Sit behind پر عمل ہوگا یا Fast forward پر۔ یہ فیصلہ باقی ہے،خدا خیر کرے۔
تازہ ترین