• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
من حیث القوم ہم خاصے دلچسپ لوگ ہیں، انتہائی رویے ہماری گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملاقاتیوں میں کچھ فرشتے ہیں اور کچھ شیطان ہیں۔ بشری خامیوں والا انسان کوئی بھی نہیں ،ہم دھڑے بند لوگ ہیں جس کا تعلق ہمارے دھڑے سے ہے اس کے سو قتل بھی معاف ہیں اور جو ہمارے دھڑے میں نہیں ہے اس کی سو نیکیاں بھی غارت ہیں۔ ہم اگر دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں تو آنکھیں بند کرکے دائیں طرف چلتے جائیں گے چاہے آگے راستہ بند ہی کیوں نہ ملے اور اگر بائیں بازو کے نظریات کے پابند ہیں تو ہمیں بائیں جانب چلنا ہی چلنا ہے خواہ آگے اندھا کنواں ہی ہمار منتظر کیوں نہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں چھلکوں سے بہت محبت ہے کسی پھل کے مغز کو ہم لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ اسلام کا نام خواہ طالبان ہی کیوں نہ استعمال کریں ہم ان کے ہر قابل نفرت فعل کا جواز تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان مخالف پرچم کوئی بھی اٹھا کر چلے اس کے ہم خیال سب کے مذموم مقاصد سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ دونوں”سودے“بیچنے والوں کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور ان کے خوش فہم پیروکاروں کے لئے دریائے راوی ہی رہ گیا ہے جس میں شہر بھر کے گندے نالے جمع ہو کر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔
کچھ اسی قسم کا رویہ ہم نے پاکستان کی دو عظیم بیٹیوں ملالہ اور عافیہ کے ضمن میں بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ ایک تیرہ چودہ سالہ معصوم بچی ملالہ کو وحشیوں نے جس طرح اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا اس پر پوری قوم تڑپ اٹھی اور یوں طالبان کے خلاف ایک سخت ردعمل سامنے آیا جس کے نتیجے میں قوم دہشتگردی کے خلاف متحد دکھائی دینے لگی مگر طالبان ذہنیت کے لوگوں کو یہ کیسے قبول ہوسکتا تھا اب مسئلہ یہ تھا کہ اس بچی پر حملے کی براہ راست حمایت تو ممکن نہیں تھی چنانچہ طرح طرح کی”دلیلوں“ سے اس کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، اس موقع پر لال مسجد میں شہید ہونے والی ”سینکڑوں“ بچیوں کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا گیا اس وقت ملالہ کے غم میں آنسو بہانے والے کہاں تھے، حالانکہ وہ بچارے اس وقت بھی آنسو ہی بہاتے نظر آرہے تھے یہ بھی کہا گیا کہ عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم پر دنیا کیوں خاموش ہے حالانکہ ان مظالم پر دنیا خاموش نہیں رہی تھی۔ مجھے تو خیر یہ منطق ہی سمجھ نہیں آتی کہ حال کے مظالم پر پردہ پوشی ماضی کے مظالم کے حوالے سے کیوں کی جائے لیکن ہمارے ہاں ہر ظالم کے ظلم کا جواز اسی طرح تلاش کیا جاتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورتحال عافیہ صدیقی کے حوالے سے بھی سامنے آتی رہی ہے۔ عافیہ صدیقی پاکستان کی وہ بہادر اور غیور بیٹی ہے جسے اس کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں امریکی دہشتگردوں نے نشان عبرت بنادیا ۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں سے پڑھی ہوئی یہ خاتون اگر افغانستان میں امریکہ کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تھی تو ماضی اور حال میں بھی ایسے لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے تاہم ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ عافیہ اس جنگ میں عملی طور پر شریک تھی چنانچہ عدالت میں بھی اس پر لگائے گئے الزامات میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کی گئی صرف یہی بتایا گیا کہ گرفتاری کے وقت اس نے ایک امریکی فوجی پر بندوق اٹھائی۔ حقیقت حال کیا ہے؟ پاکستان کی اس قابل فخر بیٹی کو پاکستان سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا یا افغانستان سے اس کی گرفتاری عمل میں آئی؟ اس ضمن میں متضاد روایات ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ”وعدہ معاف گواہ“ شوہر نے بھی تصویر دھندلانے کی کوشش کی اور اس طرح کے دنیا دار لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں تاہم اصل مسئلہ یہ نہیں اصل مسئلہ عافیہ صدیقی پر ڈھائے جانے والے وہ بہیمانہ مظالم ہیں جن کی باز گشت پوری دنیا میں سنی گئی چنانچہ کسی بھی دلیل سے ان مظالم کا جواز پیش کرنا وہ طالبانہ ذہنیت ہے جو ملالہ کے حوالے سے سامنے آرہی ہے۔ عافیہ اس وقت دنیا کی مظلوم ترین عورت ہے اس کے بچے اس سے چھین لئے گئے ہیں اس بیحد حساس خاتون کے جسم پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے گئے ہیں۔ اس کا بے ضمیر شوہر صف دشنماں میں کھڑا اس پر تیر اندازی کررہا ہے۔ اس کی بوڑھی ماں، بیٹی کے فراق میں زندہ درگور ہوچکی ہے اور ہم اس بحث میں الجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ عافیہ کا قصور کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟میرے خیال میں یہ دروازہ اب بند کردینا چاہئے امریکہ کی جیل میں86سال قید کی سزا بھگتنے والی پاکستان کی بیٹی عافیہ اس بحث کی مستحق نہیں ہے۔
اور آخر میں ایک بار پھر وہی بات کہ ہم سب کو اپنے بندھے ٹکے خیالات اور نظریات سے باہر جھانک کر بھی دیکھنا چاہئے دہشتگردی طالبان کریں یا امریکی یہ دہشتگردی ہی ہے۔ اس دہشگردی کی زد میں ملالہ آئے یا عافیہ خدا کے لئے ان پر دو صورتوں میں اس کا کوئی جواز تلاش نہ کریں صرف اس کی مذمت کریں ۔ہم کمزور لوگ ہیں صرف مذمت ہی کرسکتے ہیں اور اگر پہلے سے طے شدہ نظریات ہمیں اس مذمت سے بھی روکیں تو پھر اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، مگر کیا ایسی قوم کو اللہ کی نصرت حاصل ہوسکتی ہے جو ظالموں اور مظلوموں کے معاملے میں بھی بٹی ہوئی ہو؟ ہم میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ظالم اور اپنا اپنا مظلوم ہے۔ ہماری اس تقسیم نے ان ظالموں کو بھی ہم پر حکومت کرنے کا موقع دیا جو قوم کا ”نجات دہندہ“ بن کر منتخب حکومتوں پر قابض ہوگئے چنانچہ کسی نے جنرل ایوب خاں کسی نے جنرل ضیاء الحق اور کسی نے جنرل پرویز مشرف کو اپنا محبوب گردانا اور کسی نے انہیں ظالموں میں شامل کیا ۔ ہم لوگوں کو ان کے عزائم آٹھ آٹھ دس دس سال بعد سمجھ میں آئے جبکہ اس وقت تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ یہی رویہ ہماری قوم کے کچھ طبقات نے طالبان کے حوالے سے بھی اپنایا ہوا ہے وہ ہمارے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ہمارے دوست اس کا جواز تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ مذہب کے غلط تصور نے ان کے دماغ ماؤف کردئیے ہیں اگر کسی مذہبی حلقے سے ان دہشتگردوں کے خلاف آواز اٹھتی بھی ہے تو اس کی وجہ بھی مسلکی اختلاف ہوتا ہے ہم اللہ جانے اس تفریق سے کب نکلیں گے اور کب ملالہ اور عافیہ کا دکھ ایک ہی سطح پر محسوس کریں گے۔
تازہ ترین