• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2017-18ء کے دوران میں نے ایمنسٹی اسکیم پر 7کالم لکھے جن میں بزنس کمیونٹی اور بیرون ملک پاکستانیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت معمولی ٹیکس ادا کرکے اپنے بیرونی اثاثوں کو قانونی بنانے کا یہ موقع ضائع نہ کریں کیونکہ ایمنسٹی اسکیم مدت ختم ہونے کے بعد حکومت OECD منی لانڈرنگ معاہدے کے تحت دنیا کے 104ممالک سے بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد اور بینک اکائونٹس کی معلومات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں بے نامی ٹرانزیکشن روکنے کیلئے قانون بھی منظور ہوچکا ہے جس کے بعد وکالت نامے کے ذریعے جائیدادوں کو بے نامی رکھنا اب ممکن نہیں رہیگا۔ ان تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مدنظر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے پاکستانیوں کے ملک اور بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم پر دو سال کام کیا تاکہ بزنس مین بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ظاہر کرکے قانونی بناسکیں اور بالاخر نواز شریف حکومت کے آخری دنوں میں ایمنسٹی اسکیم (DRFA) کو پارلیمنٹ نے قانونی شکل دیدی۔


اس بار ماضی کی مختلف ایمنسٹی اسکیموں کے مقابلے میں بہتر نتائج حاصل ہوئے ہیں اور 5363اشخاص نے 8.1 ارب ڈالر (1003ارب روپے) کے بیرونی اکائونٹس ظاہر کئے جس پر ایف بی آر کو 121ارب روپے سے زائد ٹیکسز موصول ہوئے جس میں بیرون ملک سے 44ارب روپے (300ملین ڈالر) اور مقامی سطح پر 77ارب روپے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بیرونی اثاثے لندن اور دبئی میں ظاہر کئے گئے ہیں جبکہ ایمنسٹی اسکیم میں سب سے زیادہ اثاثے ظاہر کرنے والے کراچی کے میگاگروپ کے چیئرمین حبیب اللہ خان ہیں جنہوں نے 1.25ارب ڈالر (1.52کھرب روپے) کے اثاثے ظاہر کئے جس پر انہوں نے حکومت کو 3.2 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جو ایمنسٹی اسکیم کے تحت فرد واحد سے حاصل ہونیوالی سب سے زیادہ آمدنی ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت 2سے 3ارب ڈالر غیر ملکی اثاثے ملک میں واپس لائے جائینگے لیکن ملک میں انتخابات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومت کو مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔ نئی ایمنسٹی اسکیم کو اگر آئینی گارنٹی دی جاتی تو بڑی مچھلیاں اپنے اثاثے بے خوف پاکستان منتقل کرتیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی پاکستانیوں کو بیرون ملک اپنے رہائشی ممالک میں اصل اثاثے ظاہر کرنے پر قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے بھی وزیر خزانہ سے ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کی تھی کہ اس کے ذریعے دہشت گرد فنانسنگ کا کالا دھن قانونی بناکر استعمال کیا جاسکے گا مگر FATF کے خدشات قانونی طور پر حکومت تک پہنچنے سے پہلے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جاچکا تھا لیکن ایف بی آر اور FATF نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت مجرمانہ آمدنی کو قانونی نہیں بنایا جاسکے گا۔انہی پابندیوں کے تحت ایمنسٹی اسکیم میں سیاستدانوں اور حکومتی عہدیداروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے اثاثوں کو اس اسکیم کے تحت قانونی نہیں بناسکتے۔ اس اسکیم کے تحت 55 ہزار سے زائد افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے ہیں جو ہر سال انکم ٹیکس گوشوارے فائل کرکے حکومت کو ٹیکس ادا کریں گے اور ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ قانونی کی جانے والی رقم سے ملک میں سرمایہ کاری سے معاشی گروتھ، ملازمتوں کے مواقع اور حکومتی ریونیو کی وصولی میں اضافہ ہوگا۔


پاکستان کے ٹیکس قوانین انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ، پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء، پروٹیکشن آف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت کوئی بھی بیرون ملک مقیم غیر رہائشی پاکستانی بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ظاہر کئے بغیر رکھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی سرمایہ کاری اور آمدنی پاکستان سے نہ ہو۔ اسی طرح فارن ایکسچینج قوانین کے تحت پاکستان میں قانونی طور پر حاصل کی گئی آمدنی کو اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر غیر ملکی کرنسی میں بیرون ملک منتقل کیا جاسکتا تھا جس سے وہ بیرون ملک اپنے قانونی اثاثے بناسکتے تھے۔ اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن III(4) کے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی تھیں لیکن ان قوانین کا غلط استعمال کیا گیا اور اربوں ڈالر فارن کرنسی اکائونٹ کے ذریعے بیرون ملک بھیجے گئے مگر FATF کی گائیڈ لائن کے تحت حالیہ بجٹ میں ان قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے اور اب پاکستان سے بینکوں کے ذریعے فارن کرنسی بیرون ملک بھیجی نہیں جاسکتی۔ ایمنسٹی اسکیم کی 31 جولائی کو خاتمے کے بعد حکومت نے غیر قانونی اثاثے رکھنے والے لوگوں کیخلاف کارروائی شروع کردی ہے اور ایف بی آر نے برطانیہ میں 600 سے 700 افراد کو اُن کی رینٹل انکم پر ٹیکس کئی نوٹس بھیجے ہیں جن کی تفصیلات برطانوی ٹیکس حکام نے OECD معاہدے کے تحت ایف بی آر کو فراہم کی تھیں۔ ایف بی آر نے اس سلسلے میں ایک مرکزی نظام قائم کیا ہے جو ان نوٹسوں کے اجرا کے عملدرآمد کی نگرانی کریگا۔ اس سلسلے میں ایف بی آر میں ادارہ برائے اقتصادی تعاون و ترقی (OECD) کی معاونت سے ایک آٹومیٹک ایکسچینج پورٹل نصب کیا گیا ہے جس کے تحت یکم ستمبر 2018ء سے بیرون ملک پاکستانیوں کی بینکنگ معلومات اور ڈیٹا خود بخود حاصل ہوسکے گا۔ اس سسٹم کا پاس ورڈ ایف بی آر کے چند مخصوص اشخاص کے پاس ہے تاکہ کوئی اس ڈیٹا کو ضائع یا ردوبدل نہ کرسکے۔


پاکستان میں متعین برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے عمران خان سے اپنے حالیہ ملاقات میں وعدہ کیا ہے کہ وہ برطانیہ سے پاکستان کی لوٹی گئی دولت واپس لانے کا عزم رکھتے ہیں جس کی برطانوی قانون میں پوری گنجائش ہے۔ اسی طرح نیب نے دبئی میں پاکستانیوں کے اثاثوں پر انکوائری شروع کردی ہے جس کو ’’دبئی لیکس‘‘ نام دیا گیا ہے۔ نیب کے مطابق 7ہزار پاکستانیوں کی صرف دبئی میں ایک کھرب روپے سے زائد کے اثاثے موجود ہیں جس میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے کے اثاثے بھی شامل ہیں لیکن اب چیئرمین نیب نے ان اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔سوئٹزرلینڈ میں دنیا بھر کے لوگ اپنی غیر ظاہر شدہ دولت سوئس بینکوں میں رکھتے ہیں اور سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستان کے 200ارب ڈالرموجود ہیں اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے اس دولت کو ملک میں واپس لانے کیلئے ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اثاثوں کے بارے میں ایک رپورٹ مسلم لیگ (ن) حکومت کو فراہم کی گئی تھی لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ نے قومی دولت وطن واپس لانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اس پر عملدرآمد روک دیا تھا۔منی لانڈرنگ کے نئے قوانین کے تحت اب سوئس حکومت بھی اپنے بینکوں میں رکھی گئی دولت کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی پابند ہے اور حکومت کیلئے یہ اچھا موقع ہے کہ ان نئے قوانین اور معاہدوں کے تحت سوئس بینکوں سے پاکستان کی غیر ظاہر شدہ دولت کے بارے میں معلومات حاصل کرے تاکہ اسے وطن واپس لایا جاسکے۔


دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بیرون ملک اپنا سرمایہ رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے اوراب وہی لوگ مطمئن ہوں گے جنہوں نے میرے مشورے پر عمل کرکے اپنے اثاثوں کو قانونی شکل دی کیونکہ ان کی سرمایہ کاری اور دولت پاکستان میں سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ میری ایف بی آر کو تجویز ہے کہ پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کے معاملے میں جاری کئے گئے ٹیکس نوٹسوں کے حوالے سے ٹیکس فائلرز کو نان فائلرز کے مقابلے میں مختلف طریقے سے ڈیل کیا جائے اور کسی بھی صورت انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر میں بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کیساتھ ایک آزاد کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان معاملات کا جائزہ لے کہ کسی کیساتھ انتقامی کارروائی یا اُسے ہراساں نہ کیا جائے بلکہ ہمارا مقصد ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہونا چاہئے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین