• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ ہم جو جشن آزادی منا رہے ہیں ۔ وہ کچھ حلقوں کے بقول ’’ نئے پاکستان ‘‘ کا پہلا جشن آزادی ہے ۔ نیا پاکستان کیا ہے اور پرانا پاکستان کیا تھا ؟ اس حوالے سے ہر کوئی اپنی اپنی تعبیر کر رہا ہے ۔ جسے پرانا پاکستان کہا جا رہا ہے ، اس میں ہم 71سال گزار چکے ہیں اور نیا پاکستان تعمیر ہونا ابھی ہے ۔ 25جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے ۔ وہ مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی حکومت بنا رہی ہے جبکہ بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہو گی ۔ کچھ حلقے اس کو نیا پاکستان سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے ۔ نئے پاکستان کے بارے میں عمران خان کے پاس واضح تصور ہو گا لیکن یوم آزادی کی مناسبت سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اس تقریر کا حوالہ بہت زیادہ موزوں ہو گا ، جو انہوں نے 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کی تھی اور جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کو کیسا ہونا چاہئے ۔ اب جسے پرانے پاکستان سے تعبیر کیا جا رہا ہے ، میرے خیال میں وہ پاکستان قائد محمد علی جناحؒ کے تصورات اور علامہ اقبال کے خدوخال کے مطابق نہیں تھا ۔ لہٰذا نیا پاکستان ایسا ہونا چاہئے ، جو بابائے قوم کے خوابوں کی تعبیر ہو ۔ 11 اگست 1947 ء کے تاریخی خطاب میں اس پاکستان کی تعمیر کے لئے تمام رہنما اصول موجود ہیں ۔ ایسا پاکستان جہاں مذہبی آزادی ، قانون کی حکمرانی اور مساوات ہو او ر کرپشن ، اقربا پروری سے پاک ہو ۔ محمد علی جناح ؒ نے پاکستان کے قیام کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا تھا اور اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’ دنیا کی تاریخ میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ پوری دنیا اس انقلاب سے حیران ہے ، جس نے برصغیر میں دو خود مختار ریاستوں کو جنم دیا ہے ۔بہت سے لوگ ہیں ، جو انڈیا کی تقسیم سے متفق نہیں ہیں …لیکن یہ بے مثل انقلاب رونما ہو چکا ہے… میرا فیصلہ یہ ہے کہ اسکے سوا کوئی حل نہیں تھا اور تاریخ میرے فیصلے کو درست ثابت کریگی ۔ ‘‘ پھر تاریخ نے یہ دیکھا کہ بانی پاکستان کو جب بیماری کی حالت میں زیارت ( بلوچستان ) سے کراچی کے ماڑی پور ایئربیس پر لایا گیا اور وہاں سے مہتا پیلس تک لیجانے کیلئے ایمبولینس میں لٹایا گیا تو ایمبولینس گاڑی راستے میں بند ہو گئی اور اسکے بعد بے مثال طریقے سے ایک نئی ریاست قائم کرنیوالے اور اسے تاریخ کی بے مثال ریاست بنانے کاعزم رکھنے والے قائد نے کراچی کے ستمبر کے قہر آلود گرم موسم میں ماڑی پور روڈ پر بے بسی کے عالم میں اپنی زندگی کے آخری سانس لئے اور پھر وہ پاکستان کبھی تعمیر نہ ہو سکا ، جس کا انہوںنے خواب دیکھا تھا ۔ 11ستمبر 1948ءکو بانی پاکستان اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان لوگوں نے پھر یہ کہنا شروع کردیا کہ برصغیر کی تقسیم غلط تھی ۔ ان لوگوں نے محمد علی جناح ؒ کے اس فیصلے کو غلط ثابت کرنا شروع کر دیا ، جس کی توثیق محمد علی جناح تاریخ سے کرانا چاہتے تھے ۔ جب 16دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکا ہوا تو برصغیرکی تقسیم کے مخالفین نے یہ دعوی کیا کہ تاریخ نے محمد علی جناح کے فیصلے کو غلط ثابت کر دیا ہے ۔ اس بات کو چیلنج کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آئے تو 4 اپریل 1979ء کو انہیں بھی گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے بابائے قوم محمدعلی جناحؒ کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کیلئے کوششیں شروع کیں تو 27 دسمبر 2007ء کو ایک بار پھر برصغیر کی تقسیم کے مخالف برملا یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا قیام غیر فطری تھا ۔


میرے خیال میں نیا پاکستان وہ ہو سکتا ہے ، جو بانی پاکستان کے فیصلے کو درست ثابت کرے اور انکے تصورات کے مطابق ہو ۔ عمران خان کو وزارت عظمی کا حلف لینے سے پہلے بانی پاکستان کے 11 اگست 1947 کے خطاب اور اس کے تاریخی پس منظر کا دانشورانہ ادراک کرنا چاہئے ۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ قائد اعظم کس طرح کا پاکستان بنانا چاہتے تھے اور وہ کیوں نہیں بنا سکے۔ یہ ادراک حاصل کرنے سے قبل اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ قائد اعظم ایسے رہنما تھے ، جو اپنے عہد تک تاریخ کا مکمل شعور رکھتے تھے اور مستقبل کے بارے میں ان سے بہتر کسی کا وژن نہیں تھا ۔ اس کے بعد اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ قائد اعظم کا یہ انجام کیوں ہوا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کیوں نہیں بن سکا ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ 11اگست کی تقریر کے جزئیات پر غورکیا جائے ۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کو اپنے پہلے خطاب میں بانی پاکستان نے سب سے پہلے ارکان اسمبلی کو یہ باور کرایا تھا کہ یہ اسمبلی ہر طرح کے فیصلوں کی مجازہے اور وہی اس ملک کا بالادست ادارہ ہے ۔ بابائے قوم نے دوسری بات یہ فرمائی تھی کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کے جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ ان کی تیسری بات یہ تھی کہ ’’ رشوت اور کرپشن ‘‘ زہر قاتل ہیں اور ہمیں ان لعنتوں سے آہنی ہاتھ کے ساتھ نمٹنا ہو گا ۔ ‘‘ انہوں نے اپنے خطاب میں کئی بار فرمایا ’’ سنو ، سنو ، یہ زہر ہے ‘‘ ۔ اس کے بعد انہوں نے اقرباپروری اور من پسندی کو بڑی لعنت قرار دیا۔ بانی پاکستان نے 11اگست 1947ء کے خطاب میں ریاست کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ بھی واضح کر دیا تھااور فرمایا تھا کہ ’’ اس ملک میں مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل اورزبان پر کوئی تفریق نہیں ہو گی اور پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہونگے ۔ ‘‘ قائد اعظم لوگوں کی مذہبی ، مسلکی ، نسلی ، لسانی ، قومی یا گروہی شناخت کے منکر نہیں تھے ۔ وہ صرف یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہر کوئی اپنی شناخت برقرار رکھے لیکن وہ یہ بھی مدنظر رکھے کہ دوسری شناخت رکھنے والوں کے بھی مساوی حقوق ہیں ۔ کچھ لوگ اس بات سے چڑ جاتے ہیں کہ یہ تو سیکولرائیٹ کا تصور ہے لیکن وہ اس امر سے انکار نہیں کر سکتے ۔ حرم شریف میں ہر مسلک، نسل، رنگ، قوم اور فرقے کے لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔ دراصل قائد اعظم کا تصور تھا ، جس کا ماخذ اسلام کے بنیادی تصورات تھے ۔ قائد اعظم نے اپنے خطاب میں طبقاتی تفریق کی بھی نفی کی اور فرمایا کہ ہر شہری کے مساوی حقوق ہیں ۔


اب آتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان کیوں نہیں بن سکا ۔ قیام پاکستان کے بعد غیر سیاسی اور انتہا پسند قوتیں قابض ہو گئیں ، جو یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان ایک جمہوری اور روشن خیال ریاست ہو اور یہاں سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں ۔ ان قوتوں نے کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف احتساب کے نام پر صرف سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کرنے اور سماج کو غیر سیاسی بنانے کیلئے کام کیا ۔ انہوں نے سیاست دانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مذہبی انتہا پسندوں کا سہارا لیا ۔ انہوں نے امن وامان کے قیام کے نام پر بدامنی رائج کی اور جمہوری و سیاسی نظام کی جڑوں پر وار کیا ۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی خود مختاری کے نام پر پارلیمنٹ کے اختیارات چھیننے کیلئے قانون سازی کی ۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دی اور بے نظیر کا قتل کیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس انتہا پسند سوچ سے کس طرح نمٹتے ہیں۔


یہ یوم آزادی ہم اس امید کے ساتھ منا رہے ہیں ۔ عمران خان کو یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں انکے ارد گردکرپٹ کھرب اور عرب پتی ، جمہوریت دشمن اور انتہا پسند تو نہیں ہیں ۔


نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین