• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے اندر، عالمی سطح پر اور پاکستان کے گرد و پیش میں لمحہ بہ لمحہ واقعات اس رفتار سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ عالمی معاملات پر قلم جگہ جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ روس اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات ، ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔ روس کے نائب وزیر دفاع پاکستان کے دورہ پر اسلام آباد میں موجود تھے اور دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی خاطر معاہدوں پر متفق ہو رہے تھے۔ پاکستان اور روس کے مابین سرد جنگ کے زمانے میں بہت سارے ایسے معاملات ہوئے کہ جن کے سبب سے دونوں ممالک کے دفاعی ادارے ایک دوسرے کو سوویت یونین کے بعد کے زمانے میں بھی شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ پاکستان اور روس نے باہمی معاہدہ کیا ہے کہ پاکستانی اعلیٰ فوجی افسران روس کے اعلیٰ فوجی اداروں میں تربیت حاصل کریں گے۔ یہ معاہدہ Russian-Pakistan Joint Military Consultative کے اجلاس میں ہوا۔ اس اقدام کے نتیجے کے طور پر پاکستانی فوجی افسران جہاں روسی فوج کی دفاعی مہارتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے وہیں پر دونوں ممالک کے فوجی افسران عالمی اور علاقائی معاملات پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے نہ صرف واقفیت حاصل کریں گے بلکہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کیفیت بھی حاصل ہو جائے گی۔ اس نوعیت کے تعلقات کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ نہایت گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات رکھنے کے باوجود روٹھنے اور منانے کی امریکی حکمت عملی سے بار بار پریشانیوں میں گھرتا چلا جاتا ہے اور امریکہ پاکستان کے مسائل اور اس کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سوویت یونین کی افغانستان سے روانگی اور ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے امریکہ سے اس رویے کو بھگتا۔ اس لئے 1999ء میں نوازشریف نے بطور وزیر اعظم روس کا دورہ کیا اور یہ کسی پاکستانی وزیر اعظم کا 25سال بعد دورہ روس تھا۔ سرد جنگ کے بعد پاک روس تعلقات کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس دورے کا مقصد برف پگھلانا تھا۔ برف شاید پگھل بھی جاتی مگر کارگل ہو گیا اور پاکستان کے لئے عالمی سطح پر اپنے موقف کی پذیرائی بہت مشکل ہو گئی۔ گزشتہ 5 سال میں پاک روس تعلقات کو معمول سے بڑھ کر آگے بڑھانے کی خاطر اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے گئے۔ اس دور میں بھی امریکہ پاکستان پر دامے درمے سخنے الزامات مسلسل عائد کرتا جا رہا تھا۔ اس لئے اس بات کی ضرورت بہت زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو صرف امریکہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل نہ دے بلکہ دیگر ممکنات جو اقتصادی یا دفاعی ہوں، ان سے بھی فائدہ اٹھانے کی جانب بڑھا جائے۔ پاک چین دوستی تو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے مگر روس سے تعلقات کو مزید بڑھانے کے لئے سابق وزیر اعظم نوازشریف، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر دفاع خرم دستگیر، بری فوج کے سربراہان جنرل راحیل شریف، جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ ترین پاکستانی شخصیات نے روس کا دورہ کیا اور اس دوران پاکستان کو کامیابی ملی کہ روس نے MI-35چار ہیلی کاپٹر پاکستان کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ 2016ء میں پہلی بار اور پھر 2017ء میں دوسری بار دونوں ممالک کے دفاعی اداروں نے مشترکہ مشقیں کیں اور اس دوران بحیرہ عرب میں دونوں ممالک کی بحری افواج نے مشترکہ طور پر انسداد منشیات کے لئے کارروائیاں کیں۔ ان اقدامات سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ دونوں ممالک دفاعی اور معاشی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہتر تعلقات میں نئی راہیں دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس کے آگے ایک سوالیہ نشان تھا۔ روس میں یہ قانون ہے کہ اگر سابقہ سوویت یونین کے دور میں کوئی مالی معاملہ کسی ملک سے خراب ہوا اور ابھی تک وہ ویسے ہی موجود ہو تو اس ملک سے ایک خاص حد سے زیادہ معاہدے نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کی بھی یہی کیفیت تھی۔ راقم الحروف نے اس موضوع پر انہی کالموں میں گزارشات کی تھیں کہ یہ معاملہ جلد از جلد نبیڑا جائے۔ شاہد خاقان عباسی حکومت نے اپنی مدت کے خاتمے سے قبل اس معاملے کو بھی کابینہ میں پیش کر کے حل کر دیا جس کے بعد یہ رکاوٹ بھی دور ہو گئی اور اب رشین فیڈریشن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں پاکستانی دفاعی افسران کی تربیت ممکن ہو سکے گی۔ اس تعاون کے معاہدے کی ابھی روشنائی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ کی جانب سے یہ خبر آ گئی کہ امریکہ نے صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی دفاعی افسران کی امریکہ میں تربیت کا پروگرام ختم کر دیا۔ ان اعلیٰ دفاعی افسران نے امریکہ کے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کے تحت تربیت کا حصہ بننا تھا۔ یہ 66 پاکستانی دفاعی افسران ہوتے۔ امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یا تو دیگر ممالک کے دفاعی افسران کو بھی یہ سہولت میسر کر دی جائے یا سرے سے ہی کسی کو یہ نشستیں فراہم نہ کی جائیں۔ ان حالات میں روس کی جانب تعلقات کو بڑھانا ایک بہتر قدم ہے۔ خیال رہے کہ روس کے بھارت سے بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن ان قریبی تعلقات کے باوجود جب پاکستان اور روس نے مشترکہ فوجی مشقیں کرنی تھیں تو بھارت نے روس پر بہت دبائو ڈالا کہ وہ ان مشقوں کو ایک واقعہ کے تناظر میں منسوخ کر دے لیکن روس نے اس بھارتی دبائو کی سرے سے کوئی پروا نہیں کی کیونکہ روس اب خطے میں صرف بھارت سے دوستی نہیں رکھنا چاہتا بلکہ پاکستان سے بھی معاملات کو دوستانہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ بھارت اب روس سے زیادہ امریکہ کے زیر اثر جا چکا ہے۔

تازہ ترین