• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالے دھن پر میرے کالم کو قارئین نے بے حد پسند کیا اور مجھ سے منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی قوانین پر لکھنے کی درخواست کی۔ آسان لفظوں میں منی لانڈرنگ کالے دھن کو بینکنگ اور رئیل اسٹیٹ چینلز کے ذریعے غیر قانونی طور پر سفید بنانے کا نام ہے جو بین الاقوامی قوانین میں ایک جرم ہے اور اس میں ملوث اداروں، بینکرز، اسمگلرز، ڈرگ مافیا اور بزنس مینوں پر سخت جرمانے اور سزائیں ہیں۔ دنیا کے کئی سربراہان مملکت، سیاستدان اور بزنس مین اپنا کالا دھن سوئس بینکوں میں رکھتے ہیں کیونکہ ماضی میں سوئس بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے میں معلومات کسی ادارے یا شخص کو فراہم نہیں کرتے تھے۔ اس طرح کے زیادہ تر اکاؤنٹ خفیہ کوڈ نمبر کے تحت آپریٹ ہوتے تھے اور ان ڈپازٹ پر منافع دینے کے بجائے اکاؤنٹ ہولڈرز سے ان کی رقوم کو محفوظ رکھنے کیلئے سروس چارجز وصول کئے جاتے تھے لیکن9/11 اور دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پس منظر میں بین الاقوامی قوانین میں منی لانڈرنگ اور اکاؤنٹ ہولڈرز کی بینکنگ معلومات کو خفیہ رکھنے کے قانون میں تبدیلیوں کے بعد اب سوئٹزرلینڈ بھی منی لانڈرنگ کی روک تھام کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معلومات فراہم اور تعاون کرنے کا پابند ہے بلکہ سوئٹزرلینڈ دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ ایسے باہمی معاہدے کرنا چاہتا ہے جس کے تحت سوئس بینکوں میں منتقل کی جانے والی رقوم پر ان کے ملک میں ٹیکس ادا کیا جاچکا ہو جس کیلئے اکاؤنٹ ہولڈر کو بینک کو دستاویزی ثبوت فراہم کرنے پڑیں گے کہ یہ پیسے قانونی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں منی لانڈرنگ کی چیکنگ اور رپورٹنگ کا ادارہ MROS بین الاقوامی ایسوسی ایشن فنانشل انٹیلی جنس یونٹ (FIU) کو منی لانڈرنگ کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح سوئس بینکرز ایسوسی ایشن (SBA) بھی منی لانڈرنگ کے بارے میں اپنے ہم منصب مختلف بین الاقوامی اداروں کو معلومات فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی دہشت گردوں کی فنڈنگ (TF)اور منی لانڈرنگ (ML) روکنے کیلئے منی لانڈرنگ کے خلاف 2010ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون (AMLA) بنایا ہے جس کے تحت اسٹیٹ بینک میں ایک فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) قائم کیا گیا ہے جو مشتبہ ٹرانزکشن کی رپورٹنگ کرتا ہے۔
حال ہی میں میری پاکستان کے ایک بڑے بین الاقوامی بینک جو زیورخ سوئٹزرلینڈ میں رجسٹرڈ ہے کے چیف ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ سے ممتاز صنعت کاروں کے ساتھ کراچی میں ایک ظہرانے پر ملاقات ہوئی اور میں آج کے کالم میں منی لانڈرنگ پر ان سے حاصل ہونے والی معلومات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ بینک کے چیف ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ نے مجھے بتایا کہ ان کے بینک کے لندن کے ہیڈ آفس میں چند سالوں سے برطانوی سینٹرل بینک کی ٹیم منی لانڈرنگ کیلئے تحقیقات کررہی تھی جن کا فوکس غیر ملکی پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس تھے یعنی ایسے پاکستانی جو نہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں اور نہ ہی برطانیہ میں مقیم ہیں۔ کئی سالوں کے آڈٹ کے بعد برطانیہ کی ریگولیٹری اتھارٹی اس پاکستانی بینک کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام تو ثابت نہیں کرسکی لیکن اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ بینک نے پاکستان کو منی لانڈرنگ میں ملوث ”رسک ممالک“ کے درجے کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے بینک نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹ کھولنے اور منی لانڈرنگ کو روکنے کی عائد کردہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں جس کے باعث منی لانڈرنگ کی جاسکتی تھی۔ ان بنیاد پر برطانیہ کی ریگولیٹری اتھارٹی نے لندن میں قائم پاکستانی بینک پر7 لاکھ 50 ہزار پونڈ (تقریباً ایک ارب 15 کروڑ روپے) جرمانہ کیا جو مذکورہ بینک نے برطانیہ میں اپنے بینکنگ لائسنس منسوخ ہونے کے خوف سے ادا کردیئے۔ برطانوی ریگولیٹری اتھارٹی نے بینک کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ 30/اکتوبر تک ایسے تمام پاکستانی اکاؤنٹ ہولڈر جو نہ برطانوی شہری ہیں اور نہ ہی برطانیہ میں مقیم ہیں کے اکاؤنٹس بند کئے جائیں جس کا میں اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کرچکا ہوں۔ بینک کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ یہ اکاؤنٹس اور ان کی رقوم مذکورہ بینک کی برطانیہ یا دنیا میں کسی اور برانچ میں منتقل بھی نہیں کی جائیں۔ یہ جان کر مجھے آج پاکستان کے معروف BCCI بینک کے آڈٹ ، اس کے اکاؤنٹ منجمد کرنے اور بالآخر اتنے بڑے بین الاقوامی بینک کو بند کرنے کی یہودی سازشیں یاد آرہی ہیں۔ بہرحال ظہرانے میں موجود ممتاز بینکراور صنعت کاروں نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ آنے والے وقت میں کالے دھن کو رکھنا اور بینکنگ چینل سے منی لانڈرنگ کرکے اسے سفید کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا۔ یہاں میں ایک دلچسپ واقعہ قارئین سے شیئر کروں گا۔ عید کے موقع پر میں نے ہیوسٹن امریکہ میں مقیم اپنی بھانجی کو 750 ڈالر عیدی اس کے اکاؤنٹ میں بھیجی تھی۔ جب کافی دنوں یہ پیسے اس کے اکاؤنٹ میں کریڈٹ نہیں ہوئے تو معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ اس ٹرانزکشن پر انویسٹی گیشن ہورہی ہے اور بینک کو رقم بھیجنے والے کے بارے میں مزید معلومات درکار ہیں۔ میرے آفس نے مطلوبہ معلومات بینک کو فراہم کیں لیکن اس عرصے میں بینک سے بھیجے گئے 750 ڈالر واپس کردیئے گئے جسے بالآخر میں نے 2 ماہ بعد اپنے کمپنی اکاؤنٹ سے دوبارہ بھجوایا۔ اسی طرح دبئی میں بھی 10ہزار ڈالر سے زائد کی ٹرانزکشن پر رقم بھیجنے والے شخص سے بے شمار سوالات کئے جاتے ہیں۔ عرب امارات کا سینٹرل بینک منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر سخت قوانین بنارہا ہے تاکہ کالے دھن کو دہشت گردوں کی فنڈنگ اور کالعدم جماعتوں کی امداد کو سختی سے روکا جائے۔ یو اے ای کی معیشت فری مارکیٹ میکنزم کی بنیاد پر قائم ہے جہاں پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یو اے ای حکومت انکم ٹیکس سے کئی زیادہ آمدنی امیگریشن، ویزا، ٹریڈ لائسنس اور لیبر فیس کی مد میں غیر ملکیوں سے وصول کرلیتی ہے لیکن امریکہ اور یورپ کے گہرے سفارتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر امارتی حکومت نے یو اے ای میں قائم تمام کمپنیوں کو دبئی اکنامک ڈپارٹمنٹ میں ہر سال اپنی آڈٹ شدہ بیلنس شیٹس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے تاکہ ان کمپنیوں کی مالی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دی جاسکے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے وقت میں اپنے ملک اور بیرون ملک کالا دھن رکھنا اور اس کی منتقلی نہایت مشکل اور غیر محفوظ ہوجائے گی۔ منی لانڈرنگ پر برطانیہ کے ایک انٹرنیشنل بینک پر بھی امریکہ میں بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ قانونی طریقے سے حاصل کی گئی دولت اپنے ملک میں سب سے زیادہ محفوظ اور منافع بخش ہے لیکن اس کیلئے ہمیں ٹیکس ادا کرکے اپنی دولت کو قانونی رکھنا ہوگا۔ میرا ان پاکستانیوں جنہیں مذکورہ بینک نے اپنے اکاؤنٹس بند کرنے کی ہدایت کی تھی کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی رقوم کو قانونی شکل میں اپنے ملک لاکر یہاں کی معاشی سرگرمیوں میں لگائیں تاکہ ان کا دھرتی ماں کا کچھ قرض ادا ہوسکے اور ان کے یہ پیسے ملک میں صنعتی و معاشی ترقی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہم اسی وطن عزیز میں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں ہمیں مرنا ہے۔ آیئے آنے والی نسلوں کیلئے اس ملک کو ایک بہتر پاکستان بنائیں۔
تازہ ترین