• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کی صحافت اور شاعر ی اس کے خاندان کیلئے خطرہ بن رہی تھی ۔ اپنے بچوں کی خاطر اس نے صحافت اور شاعری بند کر دی لیکن افسوس کہ اپنی زبان بند کرکے بھی وہ اپنے بچے نہ بچا سکا ۔ اس کے دو جوان بیٹوں کو گولی ما ردی گئی ۔ کچھ دن قبل دو جوان بیٹوں کی لاشیں دفنانے والے اس بدقسمت باپ نے مجھے ایک خط لکھا ہے ۔ ذرا اس خط میں بیان کردہ دکھ کو پڑھ لیں ۔
محترم حامد میر صاحب
سلام مسنون ! مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے اس خط کو کیا عنوان دوں۔ میں اپنے تین میں سے دو بیٹوں کی شہادت پر ان کی ماں کی طرف مرثیہ لکھوں۔
میر صاحب ! میں انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میرا خاندان کئی نسلوں سے گلہ بانی کرتا رہا ہے۔ میرا بچپن بھیڑبکریاں چراتے گزرا۔ میں نے کچھ دینی تعلیم کے بعد پرائمری سے لیکر ایم اے تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی ۔ نہ مجھے پڑھانے والا کوئی استاد ہے نہ میرا کوئی کلاس فیلو ہے ۔ میں اپنے بچوں کو آبائی گاؤں سے نکال کر خضدار شہر لایا تاکہ میرے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ بچوں کو تعلیم دلانا میرا خواب تھا ۔ میری بیوی ان پڑھ تھی لیکن اس نے اپنے بچوں کی تعلیم پر مجھ سے زیادہ توجہ دی ۔ میرے بڑے بیٹے شہید سراج احمد اور اس سے چھوٹے شہید منظور احمد کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی ۔ بڑے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے دو جڑواں بچے ایک بیٹا اور بیٹی جبکہ ان سے چھوٹے کو ایک بیٹی عطاء کی ۔ سراج نے بی ایس سی کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا لیکن غربت کی وجہ سے پڑھائی جاری نہ رکھ سکا ۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور ملازمت کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کر لیا۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی پڑھاتا رہا ۔ منظور احمد نے اسی سال بلوچستان یونیورسٹی سے فزکس میں فرسٹ ڈویژن میں ایم ایس سی کیا اور لیکچرار بننے کیلئے پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا ۔24/اکتوبر کی رات سراج اور منظور عید کی شاپنگ کیلئے گھر سے نکلے ۔ تھوڑی دیر کے بعد گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دی ۔ میں نے فوراً بڑے بیٹے منظور کے موبائل فون پر کال کی لیکن جواب نہ ملا ۔ میں بچوں کو روتا چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگا اور پھر میں نے دیکھا کہ بڑا بیٹا سراج احمد موقع پر شہید ہو چکا تھا ۔ منظور کو زخمی حالت میں سول ہسپتال خضدار پہنچایا گیا وہاں سرجن موجود نہ تھا اسے سی ایم ایچ خضدار پہنچایا گیا جہاں اگلے دن وہ بھی ہمیں روتا تڑپتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا ۔
حامد میر صاحب ! میں نے زندگی بھر اپنے بچوں کو سیاست سے دور رکھا میں نے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کیلئے بہت محنت کی ۔ میں اپنی مادری زبان میں شاعری کرتا تھا، افسانہ لکھتا تھا اور اخبارات میں کالم بھی لکھتا تھا ۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے باعث میں نے پچھلے چار سال سے اپنی ادبی سرگرمیاں معطل کر رکھی تھیں کہ کہیں میری شاعری، افسانے اور کالم سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہم نے پریس کلب خضدار کو بند کرکے اپنے اداروں کو خبروں کی ترسیل بھی بند کر رکھی تھی ۔ پھر میرے دو جوان بیٹوں کو کس جرم میں شہید کر دیا گیا ؟ اگر میں نے کوئی قصور کیا تھا تو میرے بچوں کو سزا کیوں دی گئی ؟ میں سمجھتا ہوں کہ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ انتہائی غریب ہونے کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔ صوبائی حکومت ہو یا ضلعی انتظامیہ آج تک کسی نے میرے ساتھ دو لفظ ہمدردی کے نہیں بولے ۔ شائد میرے بچوں کے قاتل صوبائی حکومت اور انتظامیہ سے زیادہ طاقتور ہیں ان قاتلوں نے میرے بے گناہ بچوں کو کسی جھوٹ اور غلط فہمی کی بنیاد پر اجاڑ دیا ہے لیکن میں ان قاتلوں کو آج سے قیامت تک معاف کرتا ہوں کیونکہ میرے لئے اتنا کافی ہے کہ میرے دو بیٹے شہید ہو کر تاقیامت امر ہو گئے ۔ فقط ندیم گرگناڑی صدر خضدار پریس کلب،
ایک دکھی اور بے بس باپ کا خط آپ نے پڑھا ۔ ندیم گرگناڑی بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر کے پریس کلب کے صدر ہیں ۔ ان کے بچوں پر حملے سے قبل 29ستمبر 2012ء کو خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کو بھی نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا ۔ جس کے بعد پریس کلب کو تالا لگا دیا گیا تھا اور مقامی صحافیوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی بند کر دی تھی ۔ خضدار کے صحافی کافی عرصے سے ریاست کے مخالف عسکریت پسندوں اور ریاستی اداروں کے پیدا کردہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کا شکار ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے ایک مسلح گروپ نے خضدار اور چاغی کے صحافیوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دی تھیں کہ اگر انہوں نے بی ایل اے اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کی کوریج بند نہ کی تو ان کا انجام بہت برا ہو گا ۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ریاست کے مخالفوں کی طرف سے قانون شکنی اور دھمکیوں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن جب ریاستی ادارے بھی قومی مفاد کے نام پر قانون شکنی کرنے والوں کی پشت پناہی شروع کر دیں تو وہ ریاست کی سلامتی کیلئے خود سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں ۔ ندیم گرگناڑی اور ان کے ساتھی صحافیوں پر ریاست کے حامیوں اور مخالفین دونوں کا دباؤ تھا اور اس دباؤ کے باعث انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صحافتی سرگرمیاں معطل کر دیں لیکن اپنے دو جوان بیٹوں کو نہ بچا سکے ۔ یہ صرف ندیم گرگناڑی کا المیہ نہیں ہے یہ صرف بلوچستان کے صحافیوں کا المیہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے پاکستانی میڈیا کا المیہ ہے بظاہر پاکستانی میڈیا کو بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خضدار پریس کلب کو تالا لگ چکا ہے۔ جنرل سیکرٹری قتل ہو گیا اور پریس کلب کا صدر اپنے دو جوان بیٹوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کر رہا ہے کیونکہ ریاست اسے انصاف دینے کے قابل نہیں رہی ۔
اس وقت میرے سامنے پچھلے دس سال کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں قتل کئے جانے والے 86صحافیوں کی فہرست پڑی ہے ۔ 86میں سے صرف ایک صحافی کے قاتل پکڑے گئے اس صحافی کا نام ڈینئل پرل تھا ۔ باقی 85پاکستانی صحافیوں اور ان کے اہلخانہ کے کسی قاتل کو آج تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ صحافیوں کیلئے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا سب سے خطرناک علاقے ہیں ۔ انٹرمیڈیا کی ایک ریسرچ اور سروے رپورٹ کے مطابق اپریل 2012ء میں فاٹا کے 74فیصد صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں ۔ فاٹا کے 25فیصد صحافیوں پر پچھلے 12ماہ کے دوران حملے ہوئے لیکن اکثر نے خاموشی اختیار کی ۔ پچھلے دس سال میں کراچی کے ایک درجن کے قریب صحافی قتل کر دیئے گئے ۔ جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کے قاتل تو گرفتار ہو گئے لیکن ریاست سے زیادہ طاقتور عناصر نے اس قتل کے گواہوں کو کراچی میں ختم کر دیا ۔ پچھلے دس سال کے دوران 4صحافی لاہور اور 4صحافی اسلام آباد میں قتل کئے گئے کسی کا قاتل نہ پکڑا جا سکا ۔ صحافت پاکستان میں سب سے خطرناک پروفیشن بن چکا ہے اس پروفیشن میں محنت کرنے والوں کو عزت بھی ملتی ہے، شہرت اور پیسہ بھی ملتا ہے لیکن ہر وقت دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ آج آپ کو میڈیا میں جو آزادی نظر آ رہی ہے یہ آزادی کسی نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ ہمارے ساتھی اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر آپ تک سچ پہنچاتے ہیں ۔ کچھ کالی بھیڑیں اس آزادی کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی کرتی ہیں لیکن اس آزادی کا ذمہ دارانہ استعمال ہی میڈیا کو مضبوط اور موثر بنا سکتا ہے ۔ میڈیا اس وقت مضبوط اور موثر بنے گا جب وہ صرف دوسروں کیلئے نہیں اپنے لئے بھی انصاف حاصل کرسکے گا جب خضدار پریس کلب کا تالا کھل جائے گا اور ندیم گرگناڑی کا قلم اور زبان دوبارہ متحرک ہو جائے گی ۔
تازہ ترین