• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ لاجزکو ممبر پارلیمنٹ سے خالی کروانے کے لیے کوششیں کرنا یقیناً یہ وہ خبر ہے جس کو سننے اور پڑھنے کے بعد سرشرم سے جھک گئے۔ یہ ہمارے رہنما ہیں……جو وقتی اور عارضی گھروں پہ اس طرح قابض تھے جیسے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر الاٹ ہوگئے ہوں؟بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ یہ قانون بنانے والے خود ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل نہیں کرتے تو عام آدمی سے کیا توقع کی جائے گی؟ حالیہ ملکی معاشی صورتحال جہاں قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض دینےو الوں کی تلاش جاری ہے ۔ وہاں ملکی خزانے پہ جتنا ممکن ہو بوجھ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ میں " تشریف" نہیں لاتے۔ مگر ہر ماہ کی " تنخواہ اور مراعات" پابندی سے وصول کرتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو "سادگی اختیار" کرنے والے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے پچھلے دور کی ساری غیرحاضریوں کی گنتی کریں اور اس کے حساب سے جتنے پیسے بنتے ہوں وہ واپس کردیں تاکہ آئندہ ایسا کرنے والوں کے لیے وہ "مثال "بن جائیں۔ہر دور حکومت میں ان کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گناہ اضافہ کردیا جاتاہے۔ کبھی ایک دفعہ یا کبھی دو دودفعہ لیکن یہ واحد موقع ہوتا ہے کہ جب اپوزیشن کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آتا اور سب آپس میں شیروشکر ہوکر اس ایک " نیک کام" میں یکجاہوجاتے ہیں۔ جبکہ اب تک 71 سال گزرنے کے باوجود کوئی غریب پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ یہ ـ " کھیل" ہی امیروں کا ہے اس کے باوجود ایوان میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے تنخواہ کے اضافہ پہ دھیان دیا جاتا ہے۔ اب تبدیلی کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا؟……سابق صدر غلام اسحق خان نے اپنے دور صدارت میں صدور کے لیے تاحیات مراعات کا فیصلہ کروایا تھا۔ وہ اور فاروق لغاری تودنیا سے چلے گئے لیکن ان کے علاوہ 93 سے جتنے بھی صدوررہے ہیں وہ ان سہولیات سے خاندان سمیت مستفیدہورہے ہیں۔ جو کہ یقینی طور پر " خزانے" پہ ایک بڑا"بوجھ" ہے۔ کیونکہ صدر مملکت کا ایک آئینی عہدہ ہوتا ہے اس کی مدت پانچ سال کے لیے ہے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ الیکشن میںحصہ لے سکتے ہیں۔ ایسے میں کبھی رکن اسمبلی یا سینیٹ کے ممبربن سکتے ہیں، ایسے میں انہیں خاندان سمیت ساری سہولیات دینے کے کیا معنی؟ پانچ سال تک کی مراعات بہت کافی ہیں۔ بلکہ اگر رضاکارانہ طور پر کوئی اسے چھوڑ دے تو یقیناً قوم ایسے صدر کو اپنی سرآنکھوں پہ رکھے گی۔ اور یہ ہی مشورہ چاروں صوبوں کے گورنرز کے لیے بھی ہے۔کہیں نہیں جایئے" کروشیا کی صدر" کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اپنی جیب سے خرچ کرنے میں نہ تو ان کی شان میں کوئی کمی آئی نہ ہی شوکت میں اور نہ ہی ان کے اختیارات میں کسی قسم کی کمی ہوئی۔ کیا ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسی مثال قائم ہوسکتی ہے؟ سوشل میڈیا پہ ایک دو رکن اسمبلی کی طرف سے دعویٰ کئے جارہے ہیں۔ لیکن ان میں دم کتنا ہے؟یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا۔ کیونکہ چھوٹتی نہیں یہ منہ کو کافر لگی ہوئی۔

تازہ ترین