• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سینئر تجزیہ کارنے کہا ہے: پی پی غیر مقبول مگر زرداری آئندہ صدر منتخب ہو سکتے ہیں:
اکثر کسی نوجوان کو پسند کوئی ہوتی ہے مگر وہ شادی کسی اور سے کرتا ہے، کائنات میں نظریات خیالات اور عام حالات میں فارمولا ایک جیسا ہی چلتا ہے، ممکن ہے کہ غیر مقبولیت، سیاسی قبولیت کو جنم دے، اس وقت جو سینریو سامنے ہے بتا رہا ہے کہ تاحال پی پی کی حکومت بنانے کی حیثیت مضبوط اور پہلے سے طے ہے، جبکہ دوسروں کے ہاں ایک ایسے بڑے اتحاد کی توقع کم نظر آرہی ہے، جو حکومت تشکیل دے سکے، البتہ نشستیں بکھر جائیں گی، جس کا زرداری نے پہلے سے بندوبست کر رکھا ہے، سیاسی سوجھ بوجھ کے حوالے سے ہماری دوسری جماعتیں وہ سیاسی جوڑتوڑ نہ کر سکیں جس کی ان سے توقع تھی، پیپلز پارٹی اگر اپنے اصل منشور پر کماحقہ عمل کرائے تو اپنے موجودہ دور میں جتنی مورد الزام ٹھہری ہے، اگلے دور میں اتنی ہی کامیاب اور مقبول عام ہوسکتی ہے، مگر اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھٹو کے فلسفے کی پیروی کرنا ہو گی تاکہ زرداریت، بھٹو ازم کے برعکس چل کر اپنا مقام بھی نہ کھو بیٹھے، تجزیہ کارنے ریاضیاتی تجزیہ کیا ہے، اور یہ ممکن ہے درست بھی ثابت ہو جائے، بشرطیکہ مقابل پارٹیاں اپنا موجودہ چلن نہ بدلیں۔ یہ جو سیاسی آنگن میں ایک مشترکہ رقص جاری ہے، اس سے سٹیپس (Staps) پر خاص توجہ دیں خود بخود ہی پتہ چل جائے گا کہ سینئر تجزیہ کار کی نظر سینئر ہے، یا جونیئر ان کا میدان سیاست ہے کیا پتہ قریب کی کوڑی لائے ہوں، الغرض اس تجزیہ کا لب لباب یہ ہے
زمانہ عقل کو سمجھتے ہوئے ہے مشعل ِراہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
واضح رہے کہ جنوں قدم اٹھانے اور عقل سوچتے رہنے کا نام ہے

شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں زرداری کا گیلانی کو بوسہ ”کسی آف ڈیتھ“ تھا، صدر کی سیاسی مداخلت سے انتخابات کی شفافیت متاثر ہو گی الیکشن کمیشن نوٹس لے۔
حکمران بوسے کو تو موت سے الگ رہنے دیتے، سارا ذوق ہی تلپٹ کر دیا، آج تک کسی نے بوسے جیسے لائف سیونگ ڈرگ کو زہر کا ٹیکہ قرار نہ دیا لیکن قریشی صاحب کو کیا ہو گیا ہے کہ انہیں شیریں سیب بھی ”تونبے“لگتے ہیں، بوسہ ایک نہایت مقدس عمل ہے جو ماں اپنے بچے کالیتی ہے، باپ بیٹے کے ماتھے کو چومتا ہے اور اس کے علاوہ بوسہ اس قدر پہلو دار ہے کہ اسے سست رنگیا کہنا بے جا نہ ہو گا، زرداری کا ایک کمال ہے کہ انہوں نے جل کو کوئی گزند نہیں پہنچایا اور وہاں بھی گل و گلزار بنا دیا، بھلا وہ کیسے گیلانی کو چاہِ یوسف سے نکال کر پھر سے اس میں پھینک سکتے ہیں، جو بھی پیار سے ان کے قریب گیا انہوں نے بلاول مونس کو ایک کر دیا، یہ مقام تو محمود غزنوی کو حاصل تھا کہ خود کو ایاز کے پہلو میں کھڑا کر دیا۔ وہ ہر اس شخص کو توجہ دیتے ہیں جو صدقِ دل سے کہہ دے
مینوں دھرتی قلعی کرا دے
میں نچاں ساری رات
وہ اچھی کارکردگی دکھانے والے کو” ویل“ ضرور دیتے ہیں، جہاں شاہ محمود کے اس خدشے کا تعلق ہے کہ زرداری، الیکشن میں مداخلت کریں گے، تو مداخلت ناجائز نہیں بشرطیکہ جائز ہو، اگر کوئی سیاستدان انتخابات میں بجا طور پر مداخلت نہیں کرے گا تو اپنے کچن میں بیٹھ کر پراٹھا کھاتے ہوئے تو کوئی اسے ووٹ نہیں دے گا، شاہ محمود قریشی جمع خاطر رکھیں، اس بار انتخابات کے لئے ممکنہ حد تک ایسے انتظامات کئے گئے ہیں، کہ کسی کو ہارنے سے پہلے ناجائز مداخلت کا الزام دھرنے کا موقع نہیں ملے گا، وہ اپنی سونامی کو جگائیں کیا پتہ، دوسروں کا پتہ کٹ جائے۔

ہندو انتہاء پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
بے حد افسوس ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے ایک لیڈر آنجہانی ہو گئے، اس دینا کے حسن بارے ذوق نے کیا خوب کہا تھا #
گلہائے رنگا رنگ سے ہے کہ زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
اس محلے کی رونق لٹ جاتی ہے، جہاں ایک آدھ ہمسائی روز جھیڑا لگانے کو بینرے پر نہ آئے، وہ اپنے موقف، اپنی ہندوتا سے وفا دار رہے، اور پاکستان سے اٹ کھڑکا کرتے رہے، بھارتی نیتاؤں اور حکومت نے بھی ان کی لن ترانیوں کو جلترنگ سمجھا اور ان کے بے اثر اختلاف سے محظوظ ہوتے رہے، گلی سے گزرنے والا ایک ملنگ جو مخصوص آواز لگاتا گزرے، نہ رہے تو گلی سونی سونی اور غیر غیر سی لگتی ہے۔ وہ زیادہ تر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بھارت میں کھیلنے کے خلاف تھے، اور اس طرح ہماری ٹیم کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا تھا کیونکہ باد مخالف اونچا اڑانے کو چلتی ہے، تو چلنے دیں۔ بے حد افسوس ہے کہ بال ٹھاکرے کی چتا بھی جل گئی، وہ بھی گنگا کی لہروں کے سنگ سنگ چلے گئے، اگر وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے تو بیشمار مسلمان ان سے نفرت کرتے تھے، لیکن یہ نفرتیں بھی تو ایک روز اُدھر ہی کا رخ کر لیں گی جدھر خدا جانے کیا سماں ہے کہ جسے دیکھو بالآخر وہیں کے لئے رختِ سفر باندھ لیتا ہے، عدم نے خوب کہا تھا
یہ کوئی عدم ہے یا کوچہٴ صنم ہے
چلی جاتی ہے، اک خلقت خدا کی
ان کے پسماندگان کو صبر عطا ہو۔

ایک ترک صحافی نے کہا ہے نواز شریف اور شہباز شریف ترکی میں مقبول ترین لیڈر ہیں، انتخابات کی آمد آمد اِدھر ہے، اور میاں صاحبان کی مقبولیت ترکی چلی گئی ہے،
مرے چاہنے والے وطن میں ہیں
میں دل میں ہوں کسی اور کے
میاں صاحبان نے اپنا سائبان ابھی تک نہیں لگایا کہ سایہ تلاش کرنے والے اس کا رخ کریں۔ لیگوں کو اکٹھا کریں، گردن سے اتفاق فونڈری کا سریا نکال دیں، عجزو انکساری سے لوگوں کے دل جیتیں، بڑے میاں صاحب تھوڑا تھوڑا نکے میاں صاحب کو اپنے باطن میں داخل ہونے دیں، ممکن ہے وہ ایک فعال متحرک اور آنیوں جانیوں کے ماہر لیڈر بن جائیں اگر قندھاری انار جیسا روئے زیبا رکھتے ہوئے بھی وہ سانولے سلونوں سے پیچھے رہ گئے تو لوگ باگ کہیں گے
دلاں دیاں میلیاں نیں چن جیاں صورتاں
انہاں کولوں چنگیاں نیں مٹی دیا مورتاں
مسلم لیگ کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار ہے، مگر اس پر تکیہ لگا کر نہ بیٹھیں کوئی اور بھی تکیے تلاش کریں، کیونکہ یہ اعصاب شکن انتخاب ہوں گے آرام کے لئے تکیوں کی ضرورت پڑے گی۔ ماضی تو یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے گزشتہ ادوار میں دودھ کی نہریں نہیں بہتی تھیں، لیکن اب ماضی کو دفن کریں اور اس ملک کو مستقبل میں کچھ دینے کا منشور بنائیں اس پر عمل کریں تاکہ لوگ پچھلے زخم بھول جائیں اور نیا مرہم ان کی دہلیز پر ہو، ہمارے پاس ان دو پوری اور ایک آدھی پارٹی کے سوا اور رکھا کیا ہے
جائیں تو جائیں کہاں
کون سنے گا دل کی زبان
تازہ ترین