• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم مملکت پاکستان کے قیام کے 71برس کی تکمیل پر 72واں یوم آزادی ایسی کیفیت میں منا رہے ہیں کہ 25جولائی کو منعقدہ الیکشن 2018ء کے نتائج کی روشنی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ سامنے ہے۔ 14اگست 1947ء کو برطانوی استعمار اور انڈین نیشنل کانگریس کے گٹھ جوڑ کی ناکامی کی صورت میں جنوبی ایشیا کی دو مملکتوں میں تقسیم اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست کا قیام کرہِ ارض پر بیک وقت تاریخ اور جغرافیہ بدلنے کا نادر واقعہ ہے۔ یہ کام محمد علی جناح نامی جس ہستی نے ممکن کر دکھایا اس کی انگریزی تقریر سننے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے انگریزی زبان سے نابلد افراد کی بڑی تعداد ہی نہیں، سیاسی مخالفین بھی اس کی اصول پسندی، اخلاص اور مقصد سے لگن کا برملا اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تک اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے والے ملکوں میں سے بیشتر کو آزادی کے حصول یا آزادی برقرار رکھنے کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کرۂ ارض نے اپنے نقشے پر ایک نئے ملک پاکستان کو ووٹ کے ذریعہ اس عالم میں ابھرتے دیکھا کہ برطانوی حکومت اور کانگریس کے گٹھ جوڑنے مولانا ابوالکلام آزاد کے نام کو استعمال کرتے ہوئے کانگریس کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت قرار دیدیا اور بطور ہتھیار جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ قائداعظم نے اس کے جواب میں ان دو نکات پر ووٹنگ کا چیلنج دیا کہ (1) مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور (2) مسلمان پاکستان چاہتے ہیں۔ اس چیلنج کو قبول کرکے پولنگ پر رضامندی ظاہر کرنے والے دونوں فریق یہ دیکھ کر مبہوت رہ گئے کہ بوڑھے، معذور اور بیمار تک پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے اور یوں پاکستان ووٹ کے ذریعے بننے والا ملک قرار پایا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کی بے بہا جانی و مالی قربانیوں کے بغیر حصول پاکستان شاید ممکن نہ ہوتا۔ بھارتی قیادت میں شامل طاقتور عناصر نئے ملک کا قیام کیسے قبول کرلیتے جبکہ وہ بہت پہلے سے اسپین میں مسلمانوں کے خاتمے کی سازشوں کے مطالعے و تجزیے کے ذریعے انتہا پسند تنظیموں کی تشکیل کرکے مسلمانوں کا صفایا کرنے کا خاکہ ترتیب دے چکے تھے۔ مشیت ایزدی نے سر سید کی تعلیمی تحریک، علامہ اقبال کے روح پرور افکار، قائد اعظم کی بے مثال قیادت اور مسلمانان ہند کی قربانیوں کو اپنی شانِ کریمی سے قبول کرتے ہوئے 27رمضان کی مبارک ساعتوں کو 14اگست 1947ء کے مسعود دن سے ملا دیا۔ مگر پاکستان کیخلاف سرگرم عناصر اپنے دوستوں کیساتھ مل کر جو کچھ کر رہے ہیں وہ قوم اچھی طرح جانتی ہے۔ الیکشن 2018ء کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن میں آنیوالوں سمیت تمام صاحبان فکر کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ بانیٔ پاکستان جس تعلیمی شعبے کو موثر بنانے پر زور دیتے رہے اسے عشروں سے بجٹ کے محض دو فیصد حصے کا مستحق کیوں سمجھا جارہا ہے جبکہ ملک دشمن قوتوں کے ایجنٹ بھی تعلیمی ادارے نذر آتش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا یہ مثالیں قابل تقلید نہیں کہ بابائے قوم محمد علی جناحؒ اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید جیسے لیڈر اپنی ذاتی دولت ملک پر نچھاور کرنے کے باوجود سرکاری مراعات سے گریز کرتے ہوئے نہ صرف خود انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے رہے بلکہ ارکان کابینہ کو بھی شائستہ انداز میں گھر سے ناشتہ کرکے میٹنگوں میں آنے اور غریبوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ قائداعظمؒ نے جدوجہد آزادی میں شانہ بشانہ کردار ادا کرنے والی چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے سوا اپنی بیٹی اور بہن بھائیوں سمیت تمام افراد خاندان کو پاکستان آنے سے منع کرکے رشتہ داریوں کے نام پر سفارشوں سے اجتناب کا طاقتور پیغام کیوں دیا؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے سرکاری ایوانوں اور دفاتر میں قائداعظم کی 11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر آویزاں ہو اور اس پر عمل کی صورت میں قیادت کا اعلیٰ معیار نظر بھی آئے۔

تازہ ترین