• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ملک بنانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک اسلامی اور جمہوری اصولوں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ قائد اعظم نے اپنی تقریروں میں کبھی بھی لفظ سیکولرازم استعمال نہیں کیا جبکہ اسلام ان کی تقریروں اور تحریروں کا محور نظر آتا ہے۔ 11اگست 1947کی تقریر کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نفس مضمون اور مدعا اقلیتوں کو احساس تحفظ اور بحیثیت شہری برابری کا پیغام دینا تھا اور قوم کو اتحاد کی تلقین کرنا تھا جس میں پاکستان کی بقا کا راز مضمر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہوگی جہاں اقلیتوں کو غلام بنا کر رکھا جائے گا۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا ذکر کیا جو کہ عیسائیت کے دو فرقے ہیں۔ وہ اسلام اور ہندو مت کی طرح دو مختلف مذاہب نہیں۔ اس تقریر سے قبل اور بعد ازاں بھی قائد اعظم اقلیتوں کو یقین دہانیاں کراتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے کہ رواداری (Tolerance) اسلام کا بنیادی اصول ہے چنانچہ قائد اعظم نے 14اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر مائونٹ بیٹن کی تقریر کاجواب دیتے ہوئے بھی اپنے اسی نقطہ نظر کو دہرایا۔


کچھ دنوں بعد قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست والی تقریر کے مدعا کواپنے ایک انٹرویو میں واضح کیا جو انہوں نے25اکتوبر 1947کو رائٹر کے ایک نمائندے کو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر(11اگست) میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ اقلیتوں سے پاکستان کےشہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا اور ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسروں کو حاصل ہوں گے۔ پاکستان غیر مسلم اقلیتوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے کے لئے سب کچھ کرے گا۔


مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات 11اگست والی تقریر کی تشریح و توضیح پر تو بہت زور صرف کرتے رہے ہیں لیکن 25اکتوبر والے انٹرویو کا ذکر نہیں کرتے جس میں خود قائد اعظم نے 11اگست کی تقریر کے نفس مضمون کی وضاحت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں کا ایک طبقہ قائد اعظم کی محض ایک تقریر کے چند فقروں کو اپنے سیاق و سباق سے الگ کرکے اپنا من پسند مفہوم کشید کرلیتا ہے اور قائد اعظم کی اس سے قبل یا بعد میں کی گئی تقاریر کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ قائد اعظم کی تقاریر کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے خیالات میں ایک تسلسل تھا اور وہ مسلسل پاکستان میں اسلامی جمہوری فلاحی نظام کا تصور پیش کرتے رہے۔ اس حوالے سے چند ایک اقتباسات پیش کررہا ہوں جن سے قائد اعظم کی سوچ اور ویژن سمجھنے میں مددملے گی۔


نومبر1945میں قائد اعظم نے پشاور میں کہا’’آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کون سا قانون ہوگا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسولؐ اورایک کتاب ہے۔ یہی مسلمانوں کاقانون ہے اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔‘‘


14فروری1947کو شاہی دربار سبی بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلامؐ نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اوراصولوں پر رکھیں۔‘‘


30اکتوبر1947کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوے کہا’’اگر ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہوگی۔ میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔‘‘


25جنوری 1948کو عید میلاد النبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے وکلاء کے سامنے ان حضرات کو بے نقاب کیا جو ان کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے۔ اس وقت قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل بھی تھے۔ اس لئے ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ’’پالیسی بیان‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قائد اعظم کے ان الفاظ پر غور کیجئے اور ان الفاظ کے آئینے میں ان چہروں کو تلاش کیجئے جنہیں قائد اعظم نے شرارتی اورمنافق کہا تھا۔ قائد اعظم نے کہا’’میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کررہے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح1300سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے اس لئے کسی کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘


پھر فروری1948میں قائد اعظم نے امریکی عوام کے نام ایک ریڈیو پیغام میں یہ واضح الفاظ کہہ کر نہ صرف ہر قسم کے شکوک و شبہات کی دھند صاف کردی بلکہ اس بحث کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمیٹ دیا۔ قائد اعظم نے فرمایا’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل و صورت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح 1300برس قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اورانصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیوکریٹ(مذہبی ریاست) نہیں ہوگی۔ پاکستان پریمئر اسلامک اسٹیٹ ہوگی۔‘‘ پریمئر اسلامک اسٹیٹ کے الفاظ ذہن میں رکھیے قائد اعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سیرت النبیؐ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے۔ جمہوریت، مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام نے جمہوریت کی بنیاد1300برس قبل رکھ دی تھی۔ اس لئے ہمارے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔


پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی وہ سازشی اورمنافق ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر تمام شکوک و شبہات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہوگا اور اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ گویا جہاں تک نظام حکومت کا تعلق ہے قائد اعظم کا تصور پاکستان پوری طرح واضح ہے اور وہ یہ کہ قائد اعظم ایک مارڈن اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان چاہتے تھے۔ قائد اعظم کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی داخلی صورتحال کے حوالے سے وہ صوبائیت کے مسئلے سے بہت پریشان تھے۔ پشاور سے لے کر ڈھاکہ ، چٹاگانگ تک ہر جلسہ عام اور خطاب میں انہوں نےعوام کو صوبائیت کے بارے میں وارننگ دی اور نصیحت کی کہ وہ صوبائیت کے زہر کو نکال باہر پھینکیں۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو بابائے قوم کے وژن ، بصیرت اور دور بینی کی داد دینی پڑتی ہے کہ بالآخر صوبائیت نے1971میں پاکستان کو دولخت کردیا اور آج کئی دہائیوں کے بعد بھی پاکستان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ صوبائیت کا ہے۔


قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات پر بہت زور دیا جو ان کے تصور پاکستان کا ناگزیر حصہ ہیں۔ معاشی عدل کا مطلب ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔ کوئی غریب اتنا غریب نہ ہو کہ بھوکا سوئے۔ وہ چاہتے تھے یہاں قانون کی حکمرانی، سماجی اور معاشی انصاف ہو، تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں، پاکستانی معاشرہ رشوت خوری، بلیک مارکیٹنگ، اقربا پروری، سفارش اور مذہبی فرقہ واریت سے بالکل پاک ہو۔ وہ فیوڈل ازم اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ بھی چاہتے تھے۔ انہوں نے کئی مواقع پر واضح کیا کہ وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے لئے پاکستان حاصل کررہے ہیں۔ وہ فوج اور بیوروکریسی کو بہرحال سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے اور کبھی یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ پاکستان میں فوج حاکم ہوگی یا بیوروکریسی سیاست میں ملوث ہوگی لیکن ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم پاکستان بننے کے تقریباً ایک برس بعد انتقال کرگئے اور ان کے جانشین قائد اعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔ نتیجے کے طور پر غریب عوام جن کے لئے قائد اعظم نے پاکستان حاصل کیا تھا ظلم وستم، بےانصافی ، غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم قائد اعظم کے تصور پاکستان سے بہت دور ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قوم کے ذہن میں قائد اعظم کے وژن کو تازہ رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمیں یہ احساس رہے کہ ہماری قومی منزل کیا ہے اور ہمیں بہرحال اسے ایک دن حاصل کرنا ہے۔منزل دور سہی، منزل کا شعور اور احساس تو زندہ رہے۔ خواب زندہ رہے تو کبھی حقیقت بھی بن جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے قائد یہی نعرہ لگا کراقتدار میں آئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ان کے نصیب میں ہے یا کسی اور کے؟ غربت کے خاتمے کے لئے قوم کی دعائیں عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن جاگیرداروں میں گھرا ہوا عمران جاگیرداری سے نجات حاصل کرتا ہے یا نہیں کیونکہ اس کا خاتمہ قائد اعظم کے پاکستان کا تقاضا ہے اور قائد اعظم کا پاکستان عمران کا وعدہ ہے۔ 24اپریل 1943کو مسلم لیگ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا’’یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کردینا چاہتا ہوں جو ہمارا خون چوس کر......خودغرض بن چکے ہیں۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں شامل ہوچکا ہے۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسےہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا میسر نہیں......اگر پاکستان کا تصور یہ ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔‘‘ 27فروری 1946کو مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب میں انہوں نے کہا’’مجھے سرمایہ داروں سے کوئی ہمدردی نہیں، میں بڑھاپے میں خون پسینہ ایک کررہا ہوں، ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا ہوں، یقیناً سرمایہ داروں کے لئے نہیں بلکہ آپ غریبوں کے لئے۔‘‘


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین