• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر حکمران کو تخت نشینی کے وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ اپنے لئے ایک ایسی ٹیم تشکیل دے جو اس کے اقتدار کو دوام بخش سکے ۔اسکے علاوہ ایسے مشیروں اور معاونین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو حکمراں کے لئے آنکھ ،کان اور دماغ بن جاتے ہیں ۔ہمایوں کی وفات کے بعدمغل شہزادے جلال الدین اکبر نے14برس(بعض روایات کے مطابق 12سال)کی عمر میں تاج و تخت سنبھالا تو بیرم خان اتالیق مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی حکمرانی کے گر سکھانے والے بیرم خان کو شاہی دربار سے لاتعلق ہونا پڑا ۔اکبر نے اپنے لئے جو ٹیم منتخب کی اسے تاریخ میں نورتن کہا جاتا ہے۔راجہ بیربل ،ابوالفیض فیضی،ابوالفضل ،تان سین ،عبدالرحیم ،راجہ مان سنگھ ،مُلا دو پیازہ ،راجہ ٹوڈر مل اور مرزا عزیز کوکلتاش جیسے عالم و فاضل اکبر کے نورتن کہلاتے تھے ۔علامہ ابوالفضل کی تصانیف میں سے ’’آئین اکبری ‘‘ بہت مشہور ہے جبکہ باقی رتن بھی اپنے اپنے شعبوں میں صاحب ِکمال و فن تھے ۔کم سنی میں تخت نشین ہونے والے مغل شہزادے کو اس ٹیم کی بدولت ہی نہ صرف جلال الدین اکبر بننا نصیب ہوا بلکہ اس نے کم و بیش 50برس تک برصغیر پر حکمرانی کی ۔


سیاسی اتالیق کا کردار تو اب بھی باقی ہے مگر نہ تو یہ مغلیہ سلطنت ہے اور ناں ہی نئے پاکستان کے ممکنہ وزیراعظم کو جلال الدین اکبر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ہاں مگر کپتان نے ابھی تک اپنے لئے جو ٹیم منتخب کی ہے اس کے لئےنورتن کی اصطلاح ہی موزوں محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک رتن جگمگاتا محسوس ہوتا ہے۔ کپتان کے ہم نام عمران اسماعیل سے آغاز کرتے ہیں جنہیں گورنر سندھ نامزد کیا گیا ہے ۔موصوف نے کراچی میں بہت نیک نامی کمائی ہے۔ منرل واٹر اور غیرمعیاری جوس کی فروخت کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں ،دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اٹلی سے تعلیم حاصل کی لیکن الیکشن کمیشن میں نامزدگی فارم جمع کروایا تو معلوم ہوا کہ بات بی کام پارٹ ون سے آگے نہیں بڑھ سکی یعنی ایف اے پاس ہیں۔ دیگر نورتنوں کا ذکر بھی تو کرنا ہے۔چوہدری سرور کو پی ٹی آئی کی جانب سے گورنر پنجاب نامزد کیا گیا ہے اور میرے نزدیک چوہدری سرور صاف ستھرے سیاستدان ہیں لیکن جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انہیں گورنر پنجاب لگایا تو جناب عمران خان کے ’’رتن اعلیٰ ‘‘ شیخ رشید نے فرمایا کہ چوہدری سرور کا برطانیہ میں مشروبِ مغرب کا بہت بڑا کاروبار ہے عین ممکن ہے کہ نئے پاکستان کے پیش نظر انہوں نے مشروبِ مغرب کے کارخانے بند کرکے آب ِزم زم بیچنا شروع کر دیا ہو۔لیکن چند برس قبل انکے گورنر پنجاب بننے پر شیریں مزاری اور فواد چوہدری نے جو ٹویٹس کیں وہ ان دنوں سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں ،پرانے پاکستان کی پرانی باتیں ،اگر وقت ہو تو ان ٹویٹس سے ضرور لطف اٹھائیں۔ جناب فواد چوہدری کا شمار بھی عمران خان کے اہم ترین مصاحبین میں ہوتا ہے ۔انہوں نے ماضی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو کن القابات سے نوازا، اس قصے کو نہ ہی چھیڑیں ۔فواد چوہدری کو باقی رتنوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ایک سے زائد درباروں میں بطور رتن خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ فرزند جہلم چوہدری فواد حسین نے جنرل (ر)پرویز مشرف کے دربار میں رتن کی حیثیت سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ،بعد ازاں آصف زرداری کے دربار سے منسلک ہوگئے اور اسی شد ومد کیساتھ بھٹو کے سیاسی نظریئے کا دفاع کرنے لگے ،ان کا اگلا پڑائو مسلم لیگ (ق) ٹھہری جہاں فواد چوہدری نے گجرات کے چوہدریوں کو اپنی صلاحیتوں سے مستفید کیا اور اب نئے پاکستان میں انہیں اہم ترین رتن کی حیثیت حاصل ہے ۔موصوف پارٹی کے ترجمان ہیں اور ممکنہ وزیر اطلاعات و نشریات بھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی دوڑ میں نہ صرف شامل رہے بلکہ سبقت لیجانے کی کوشش میں اپنی ہی پارٹی کے رہنمائوں کیخلاف میڈیا میں مہم بھی چلواتے رہے ۔


خیبر پختونخوا کے نامزد وزیراعلیٰ محمود خان کے بارے میں تو آپ جان ہی چکے ہونگے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب وہ صوبائی وزیر کھیل تھے تو انہوں نے مبینہ طور پر سرکاری فنڈز محکمہ اسپورٹس کے بینک اکائونٹ سے نکلوا کر اپنے ذاتی بینک اکائونٹ میں منتقل کر دیئے اور جب یہ بات میڈیا میں آئی تو اسکی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ صوبے بھر میں ہونیوالی تقریبات میں کھلاڑیوں کو نقدرقوم دینے کیلئے یہ فنڈز نکلوائے گئے۔پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہو گا ؟اگرچہ یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا ،نیب زدہ علیم خان کا نام عوامی دبائو کے باعث پیچھے جا چکا ہے لیکن چکوال کے ایک نوجوان ایم پی اے راجہ یاسر ہمایوں سرفراز جن کا نام میڈیا میں سرفہرست ہے انہیں مبینہ طور پر ڈرگ کورٹ سے سزا ہو چکی ہے ،اڈیالہ جیل کی یاترا کرچکے ہیں اور ان دنوں ضمانت پر باہر ہیں ۔مبینہ طور پر چکوال میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں جس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اعتراض ہے ۔سابق وزیر قانون بابر اعوان کا شمار بھی عمران خان کے نورتنوں میں ہوتا ہے جنکے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہیں وزیراعظم کا مشیر یا معاون خصوصی بنایا جائیگا، ان پر نندی پور پاور پروجیکٹ میں 27ارب روپے کرپشن کا کیس اب بھی التوا کا شکار ہے اور سپریم کورٹ نے جب یہ کیس ری اوپن کیا تو نیب نے جمع کروائی گئی رپورٹ میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس وقت کے وزیر قانون بابراعوان اس نقصان کے ذمہ دار ہیں۔


نعیم الحق ،عون چوہدری اور عامر کیانی جیسے لوگ بھی کپتان کے نورتنوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں حکومت سازی کے بعد ـ’’کچن کیبنٹ ‘‘ کا درجہ حاصل ہو گا ۔ان کی کیا خدمات ہیں اور یہ کن خصوصیات کے حامل ہیں ،بہتر معلوم ہوتا ہے کہ نئے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اغماض اور چشم پوشی ہی اختیار کی جائے کیونکہ ’’مشیروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ‘‘ والی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔بہر حال خاکم بدہن، ان نورتنوں کیساتھ عمران خان حکومت کی پچ پر ایک بڑی اننگز کھیلتے نظر نہیں آتے جنرل کے ایم عارف کا شمار ضیا ء الحق کے نہایت قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب ’’ورکنگ وِد ضیاء‘‘ میں مشیروں سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ ضیا ء کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئیر محمود دُرانی سے پوچھا گیا کہ تین ایسے لوگوں کے نام بتائیں جنہوں نے ضیاء کی شخصیت اور اقتدار کو ضعف پہنچایا ۔انہوں نے اسلم خٹک،جنرل رفاقت اور جنرل حمید گل کانام لیا ۔اسی طرح ان سے سوال کیا گیا کہ تین ایسے افراد کے نام بتائیں جنہوں نے ضیاء کے دور اقتدار کو طول بخشا ۔درانی نے غلام اسحاق خان ،جنرل جیلانی کے علاوہ جو تیسرا نام لیا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے حذف کر دیا جائے ۔یہ تیسرا نام دراصل کے ایم عارف کا ہی ہے جنہیں اس دور کا ڈی فیکٹو وزیراعظم کہا جاتا ہے جب نئے پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ عمران خان کو ان کے نورتن لے ڈوبے ۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین