• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے دردیوار دو طرح کی عبارتوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ ایک تو وہی ’’مایوس ‘‘ نوجوانوں کے متعلق کہ جنہیں پڑھ پڑھ کر اب ہم سوچنے لگے ہیں کہ اگر صحیح صورت حال یہی ہے تو آخر ملک میں نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ جاری کس طرح ہے اور دوسری عبارت بھی خوب ہے جس کے مخاطب وہ راہ گیر ہوتے ہیں جنہیں بوقت ’’ضرورت‘‘ ڈھونڈنے سے بھی کوئی ’’گوشہ عافیت‘‘ نظر نہیں آتا اور بہ امر مجبوری تمام اخلاقی اقدار وضع داریاں بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں یا بیٹھ جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے شہر کی تمام دیواروں پر ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ کی عبارت جلی حروف میں لکھی ہوئی نظر آتی ہے لیکن یہ عبارت اتنی ہی ’’غیر موثر‘‘ ثابت ہوتی ہے جتنی کہ ’’نکاسی آب‘‘ کا معقول انتظام نہ ہونے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کثرت آب سے دیواروں کی بنیادیں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر ان دیواروں کے مالک متذکرہ عبارت لکھنے کی بجائے وہاں ایک عددگدھے کی تصویر بناتے ہیں اور اس کے نیچے مزید جلی حروف میں یہ عبارت درج کرتے ہیں’’وہ دیکھو گدھا پیشاب کر رہا ہے‘‘۔


لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ’’گدھے ‘‘ پھر بھی باز نہیں آتے ۔ البتہ کچھ عرصے سے میں اس نوع کی دیواروں پر ایک نئی عبارت دیکھ رہا ہوں جو خاصی موثر ثابت ہو رہی ہے حالانکہ اس عبارت میں نہ تو منع ہے ’’قسم‘‘ کی کوئی چیز درج ہے اور نہ کسی کو گدھا کہا گیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ


’’اس طرف قبلہ ہے‘‘ ۔


نتیجہ یہ کہ اس دیوار کے نیچے ہم نے کوئی مائع قسم کی چیز سانپ جیسی لکیروں کی صورت میں نہیں دیکھی۔ البتہ ایک روز ایک نوجوان کو ایسی دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا دیکھا تو مجھے حیرت ہوئی۔


جب وہ فارغ ہوا تو میں نے پوچھا ۔


میاں یہ کیا کر رہے تھے ؟اس طرف تو قبلہ ہے‘‘


کہنے لگا!


میں نے تحقیق کر لی ہے قبلہ اس طرف نہیں ہے،


چونکہ اب پہلے سے زیادہ سنگین مسائل پیدا ہو چکے ہیں ۔ چنانچہ ان دیواروں پر سے پہلی عبارتیں مٹا کر نئی عبارتیں درج کرنا چاہئیں جن میں عوام کو سختی سے ان چیزوں سے منع کیا گیا ہو جو واضح طور پر نا پسندیدہ ہیں۔


مثلاً میرےنزدیک اختلاف کرنا ایک نا پسندیدہ فعل ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے یہ صرف میری رائے نہیں بلکہ ان دنوں بہت سے معتبر لوگ یہ بات کہتے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ مجھ ایسے معتبر لوگوں نے ایک عرصے سے اختلاف کرنا چھوڑ رکھا ہے بلکہ ہم میں سے بیشتر تو ایک ایک کر کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت کا حصہ ہو چکے ہیں ۔اس کے باوجود ہمارے درمیان ایک محدود سا طبقہ موجود ہے جو اختلاف کرنے سے باز نہیں آتا اور جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں اختلاف کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کے لئے ضروری ہےکہ جگہ جگہ ’’یہاں اختلاف کرنا منع ہے‘‘ کی تختیاں آویزاں کی جائیں ۔ اگر یہ لوگ اس کے باوجود اپنی اس حرکت سے باز نہ آئیں تو دیواروں پر گدھے کی تصویر بنائی جائے اور نیچے لکھا جائے کہ


’’دیکھو!گدھا اختلاف کر رہا ہے‘‘


ممکن ہے اس حربے کے باوجود یہ لوگ اپنی مخالفانہ ذہنیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اختلاف کے ذریعے معاشرے میں انتشار پھیلانے کی پریکٹس جاری رکھیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آخری حربے کے طور پر جگہ جگہ یہ عبارت درج کی جائے۔


’’یہاں قبلہ و کعبہ تشریف رکھتے ہیں براہ کرام ان کے سامنے بحث و تمحیص سے گریز کریں‘‘


مجھے یقین ہے کہ اس طریقے سے ان کی زبانوں کو لگام پڑ جائے گی کیونکہ ہماری قوم کے گناہگار ترین افراد بھی مذہبی حوالے کا کچھ نہ کچھ احترام ضرور کرتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے قوی توقع ہے کہ اس حوالے کی موجودگی میں یہ لوگ اختلاف کرنا چھوڑ دیں گے۔ تاہم یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی ایسی ہی جگہ پر کوئی سر پھرا شخص کھڑا اختلاف کر رہا ہو اور کوئی اس سے پوچھ بیٹھےکہ !


’’میاں یہ کیا؟‘‘


تو آگے سے دانت نکال کر کہے


’’میں نے تحقیق کر لی ہے، یہاں کوئی ایسا قبلہ و کعبہ نہیں جس سے اختلاف نہ کیا جا سکے‘‘


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین