• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں آئی ایم ایف سے بچائو

نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے کہا ہے امریکہ نے نیک تمنائیں ختم کر دیں، اسلامی بینک ہمیں آئی ایم ایف سے بچائے، امریکہ اب اس ایجنڈے پر ہے کہ پاکستان کو اس کے دور نزدیک کے ہمسایوں سے الگ کر دے، مگر آنے والے وقت میں یہ پالیسی بری طرح ناکام ہو گی، وہ ہمارے اردگرد جو دائرہ بنا رہا ہے اور گھیرا تنگ کر رہا ہے وہ اس کے لئے قندتہ ثابت ہو گا، وہ اپنے تئیں لاکھ سپر پاور بنا رہے اسے اب کوئی سپر پاور مانتا نہیں، پاکستان نے سب سے زیادہ اس کو ڈکٹیشن قبول کر کے بڑے نقصانات اٹھا لئے مگر اب مزید نہیں کیونکہ ہمارے ہاں امریکہ بارے سوچ بدل چکی ہے، ہمیں اسد عمر کی یہ بات اچھی نہیں لگی کہ آئی ایم ایف کے پاس تو جانا پڑے گا، بلاشبہ آئی ایم ایف ایک بڑا عالمی مالیاتی ادارہ ہے اور ہمارے خالی خزانے کو بھر سکتا ہے، مگر ہمیں دیوالیہ سے بھی وہی ہمکنار کرے گا، یہ پہلی ڈس کوالیفیکیشن ہے جو ممکنہ وزیر خزانہ کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ انہیں آئی ایم ایف کو منفی کر کے اپنے دوستوں اور اسلامی بینک سے قرضہ لینے کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے، اگر کشکول نہ ٹوٹا تو تبدیلی کا دعویٰ محض سیاسی نعرہ ثابت ہو گا، امریکہ ہو بھارت ہو یا کوئی بھی ملک پاکستان سب کی طرف دستِ دوستی بڑھائے دستِ سوال دراز نہ کرے، عبداللہ حسین ہارون نے کسی ٹھوس بنیاد پر آئی ایم ایف سے بچنے کی تلقین کی ہے، اگر مالیاتی دانش مندی دور اندیشی سے کام لیا جائے تو آئی ایم ایف کے در پر جائے بغیر بھی ہمارا مشکل وقت گزر سکتا ہے، آئی ایم ایف بھی اقوام متحدہ کی مانند امریکہ کا غلام ادارہ ہے، امریکہ کی نیک تمنائیں کبھی ہمارے ساتھ نہیں تھیں مگر ہمارے حکمران پاکستانی قوم کو اس کے سامنے جھکاتے رہے، اب بھی جیسا کہ عمران نے کہا ہے کہ امریکہ سے برابری کی سطح پر باہمی مفاد پر قائم تعلقات رکھیں گے، ہمیں سردست امریکہ چین تنائو، بھارت کی طرف امریکی جھکائو پر توجہ کے بجائے اپنا اُلو سیدھا کرنے کی پالیسی اپنانا ہو گی، ہم سعودی عرب پر ایران اور ایران پر سعودی عرب کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ شاہ سلمان کا یہ کہنا کہ پاکستان کی ہرممکن مدد کریں گے پہلا مثبت پیغام ہے ہماری معیشت کے لئے چین سے قرضہ لینے کا میکنزم بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے آخر ہمارا اسٹیٹ بینک ہی تو مناسب ذریعہ ہے امداد وصولی کے لئے۔


٭٭


٭٭


اندر باہر کیلئے مثبت سوچ کی ضرورت


بہت عرصہ سیاست چمکانے کیلئے ہم نے اندرونی بیرونی سطح پر منفی نعروں، دھمکیوں اور بڑھکوں سے کام چلا لیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ اہل سیاست و حکومت امیر سے امیر تر اور ان کو لانے والے عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے، اب وقت چیخ رہا ہے کہ یہ پریکٹس چھوڑ دو، کسی کو دشمن نہ کہو، اگر کوئی کہتا ہے تو کہنے دو، بھارت سے دشمنی پر جتنا زور دیا گیا اور اسے نعرہ بنا کر اچھالا گیا اس کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، ہمیں امریکہ کو چین سے اپنی دوستی باور کرانے کے بجائے اسے یہ یقین دلانا ہو گا کہ جن بنیادوں پر ہماری چین سے دوستی ہے انہی پر ہم امریکہ سے بھی ٹھوس تعلقات استوار کرنے کو تیار ہیں، یہ بات خطرناک ہے کہ ہم امریکہ کو خطے میں اسکے مقابل کسی بلاک کا حصہ بننے کا تاثر دیں، دوستی وہی اچھی کہ نہ ہم کسی پر سواری کریں اور نہ کسی کو اپنے اعصاب پر سوار ہونے دیں، اور یہ ناممکن نہیں اس کے لئے کامیاب خارجہ پالیسی اور موثر سفارتکاری درکار ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان رہا ہے۔ ہماری سب سے کمزور وزارت، وزارت خارجہ کیوں ہوتی ہے، ہمیں سفیروں کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہایت احتیاط سے کرنا ہو گا، یہ نہیں کہ امام کی ضرورت ہو اور ہم مقتدی بھجوا دیں، اپنے گھر سے لے کر تابفقیر امارت مثبت رویہ اختیار کریں گے تو ہماری پالیسیاں پھل دیں گی، حکمرانی ایک بھاری ذمہ داری اور خدائی فریضہ ہے، اپنی سیاست کو اتنا باوقار اور مثبت بنانا ہو گا کہ تمام اداروں کو یقین ہو کہ سیاستدان ہی حکومت چلا سکتے ہیں، حکومت کو سیدھا رکھ سکتے اپوزیشن کے روپ میں، خیر و شر دونوں میں بیورو کریسی ارباب حکومت کے بہترین معاون ثابت ہو سکتے ہیں اب یہ وزیروں مشیروں اور سربراہ حکومت پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، بیورو کریسی سے غلط کام تو لئے گئے ان کی مہارت و ذہانت سے ملک و قوم کے لئے کام نہیں لیا گیا۔


٭٭٭٭


اجتماعی ذہنیت اور انفرادی ذہنیت


فرد اپنی سوچ اپنی ذہنیت کے حوالے سے اچھا ہو بُرا ہو قوم کی اچھی بری ذہنیت کا عکاس نہیں ہو سکتا، قوموں کے مقام و وقار کا تعین ان کی اجتماعی ذہنیت سے ہی ہوتا ہے، اس لئے ہمیں اپنی کتابوں میں نصابوں میں اجتماعیت کے فلسفے اور اس کی برکات کو اجاگر کرنا ہو گا، میں نے انگلستان میں دیکھا کہ نہ صرف نصاب ایک ٹائم ٹیبل بھی ایک ہے، ایک نقطے پر قوم کا یکجا ہونا ایک طرح سے فلسفہ توحید کا فیض ہے، جو قومیں اس سے مستفیض ہوئیں وہ سربرآوردہ ہو گئیں، اور جن قوموں نے نقطہ واحد سے دوری اختیار کی وہ تتر بتر ہو کر راستہ ہی بھول گئیں، ایک کنبے میں بھی ایک کچھ ٹیڑھا اور اکثریت صراط مستقیم پر ہوں تو وہ ایک ٹیڑھا کسی کو نظر ہی نہیں آتا بلکہ آخر کار وہ بھی دوسرے میٹھے خربوزوں کا رنگ اور مٹھاس پکڑ لیتا ہے، اور یوں سارا کھیت آئیڈیل ہو جاتا ہے، جب کوئی قوم اپنے پیغمبر کی بات نہیں مانے گی تو وہ کسی کالم نگار کی لکیروں پر کیا خاک توجہ دے گی، حضور سید الکونین ﷺ نے کئی بار کئی مواقع پر فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں، ہم نے ماننا تو کجا اس فرمان ہی کو الٹا کر اس پر عمل کر دکھایا اور آج من حیث القوم دل، دماغ، کلیجہ، گردے، گوڈے گٹے سب، سب کے خراب ہیں، ملاوٹ شدہ غذا سے ہم بچ ہی نہیں سکتے کیونکہ ملاوٹ ہمارا اجتماعی گناہ بن چکی ہے، اچھی زندگی کے لئے کسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہوتی، خیر و شر میں تمیز کرنے اور خیر کو اختیار کرنے کی حاجت ہوتی ہے، ہم نے اپنی بیمار ذہنیت سے اپنی روحانیت کو بھی داغدار کر دیا ہے، گویا پوری قوم کا جسم اس کی روح دونوں بیمار، ہم کلمہ پڑھ کر گناہ کرتے ہیں ترقی یافتہ قومیں کلمہ پڑھے بغیر نیکی کرتی ہیں۔


٭٭٭٭


سولہ آنے ٹھیک؟


....Oجہانگیر ترین:حرکت میں برکت ہے، پارٹی کے لئے جہاز کا استعمال ضروری تھا۔


پہلی برکت تو یہ ہے کہ جہاز نے اپنی قیمت پوری کر دی۔


....Oتہمینہ درانی:پنجاب بہترین لیڈر سے محروم۔


سوشل میڈیا:کرپٹ سے جان چھوٹ گئی۔


....O ایوانکا ٹرمپ:نیو نازی ازم کی امریکا میں کوئی جگہ نہیں۔


اولڈ نازی ازم زیادہ خطرناک نہیں؟


....Oبلاول:جنوبی پنجاب صوبہ بنانا مشن۔


مگر یہ مشن تو تحریک انصاف نے ’’مَل‘‘ لیا ہے۔


....Oکئی سیاستدانوں کی رشتہ دار خواتین مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی منتخب۔


اقربا پروری اسی طرح شروع ہوتی ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین