• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجیے یہ کل کی بات معلوم ہوتی ہے جب 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب رات بارہ بجتے ہی قیام پاکستان کا اعلان کیا گیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے 71 برس بیت گئے طرح طرح کے حادثات و واقعات رونما ہوئے دشمن نے مملکت خداداد پاکستان کا ایک بازو تن سے جدا کردیا وہ وقت بھی گزر گیا آج جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو کہیں ہلکی ہلکی روشنی کسی چنگاری کی مانند دکھائی دیتی ہے جب دائیں بائیں نظر ڈالتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے کہیں آگے چلے جا رہے ہیں شاید ہمارے قدموں کو ہماری ہی زمین نے پکڑ رکھا ہے دراصل انگریز نے ہمیں ایک قطعہ زمین ہماری جدوجہد کے صلے میں دے تو دیا لیکن اس کے حلق سے نہیں اتر سکا ویسے بھی ابتدائے اسلام سے کلیسائی قوتیں بردار مسلم امت کے خلاف کمر کسے ہر دم تیار رہتی ہیں جب انگریزوں نے یہ دیکھا کہ مسلمان تو مسلمان ان کے ساتھ دوسری اقوام خصوصاََ ہندو تحریک آزادی میں سر گرم ہیں انہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کہ اس خطے بر صغیر پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں مجبوراََ ان کو فیصلہ کرنا ہی پڑا چونکہ انگریز نے بر صغیر کا قبضہ مسلمان شہنشاہ سے لیا تھا اصولا تو اسے اس خطے سے نکلتے ہوئے اس خطے کو اس کے اصل ورثا مسلمانوں کو سونپنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا مسلمانوں کو منتشر رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی کیونکہ ہندوئوں کو بھی یہ خطرہ تھا کہ کہیں مسلمان قوم نے 1857ء میں انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی ابتدا کی تھی اب پھر وہ اپنے دعوے ملکیت پر نہ اڑ جائیں اس لیے ہندو فرنگی ملی بھگت نے اس خطے کو اس طرح تقسیم کیا کہ مسلمان کسی طرح یکجا نہ ہوپائیں، اکابرین ملت خداداد پاکستان نے لا دینی مملکت روس سے ہاتھ ملانے کے بجائے امریکا جسے وہ اہل کتاب سمجھتے تھے کی سرپرستی میں چلے جانا پسند کیا اب وہی سرپرست سر پر سوار ہے اور ہر طرح سے اپنے احکامات کی تعمیل چاہتا ہے اس کے لیے وہ ہر قسم کے حربے استعمال کرتا ہے ملک میں اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے وہ اپنی من مانی کرانا چاہتا ہے ورنہ حکمرانوں کے تخت کا تختہ کردینے میں اسے دیر نہیں لگتی۔


درد سر کے واسطے صندل لگا ہے مفید


لیکن اس کا گھسنا اور لگا یہ بھی درد سر سے کم نہیں


نو منتخب وزیر اعظم نے اپنی تقریر اول جو محض انتخابات کے تناظر میں کی گئی تھی میں واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ مملکت خداداد پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلائیں گے جانے کیوں ان کی اس بات سے خوف آنے لگا ہے کیونکہ امریکا نے افغانستان میں قائم ہونیوالی اسلامی ریاست جو پاکستان کی زیر سرپرستی ملا عمر نے نہ صرف بنا لی تھی بلکہ کامیابی بھی حاصل کرلی تھی وہ حکومت تمام کلیسائی قوموں اور امریکا کو پسند نہ آئی اور اب جبکہ یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ نائن الیون کا حادثہ خود امریکا نے کیا تھا اور اس کا الزام افغانستان کی اسلامی ریاست پر لگا کر اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی افغانستان سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی مانند آج بھی پھنسا ہوا ہے جسے امریکا کو نہ اگلے بن رہی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے گو کہ عمران خان صاحب کا خیال نہایت عمدہ اور عین مملکت خداداد کے آئین کے مطابق ہے لیکن بظاہر ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود اپنی ذات کو ایک نمونے کے طور پر پیش کریں اور سادگی جس کا اظہار وہ اپنی عام زندگی میں بھی کر رہے ہیں جس میں احترام قانون جس کا پہلا ثبوت انہوں نے پشاور نیب میں پیش ہو کر دے دیا ہے اپنے اسی طرز عمل پر عمل پیرا ہو کر وہ نظام حکومت چلانے اور اپنے کسی ساتھی کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دیں اور ہر خاص و عام کا کڑا احتساب کریں جیسا کہ ان کا مشن ہے کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمے پر پوری طرح عمل کریں تو یقیناً وہ اپنا نام تاریخ پاکستان میں سنہرے حروف سے لکھوا لیں گے۔ اچھی حکمرانی قائم کرنے کیلئےانہیں بہت برداشت اور ہمت و حوصلے سے کام لینا ہوگا ورنہ اور تو اور خود انکے اپنے ساتھی ان کے ساتھ ہاتھ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے کیونکہ ان کی جماعت میں باہر سے آنیوالے کھائے پئے تجربہ کار لوگوں کی کمی نہیں ان میں سے کئی ماضی میں ایسے بھی کردار رہے ہیں جو آنکھوں سے سرمہ چرالیں اور متعلقہ فرد کو پتا بھی نہ چلے عمران خان صاحب کو قدم قدم پر بڑے بڑے چیلنجوں سے واسطہ پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ میں بھی ایک مضبوط اور متحد اپوزیشن کا سامنا ہو گا مرکز میں بھی اور صوبوں میں بھی ویسے بھی شکست سے دوچار ہونیوالے تمام ہی کردار ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے جلتے توے پر بیٹھے ہوں انکا فی الحال بس نہیں چل رہا کہ انتخابات کو قطعی تسلیم نہ کریں پہلے انہوں نے کچھ ایسا ہی فیصلہ کیا تھا لیکن پھر شاید باہمی مشاورت نے احتجاج کی راہ سجالی اور اسمبلی میں جانے اور حلف اٹھانے کی ٹھان لی گئی کیونکہ شاید انہیں یہ خدشہ ہوگیا ہو کہ الیکشن کو مسترد کرنے اور مستعفی ہونے سے جو کچھ ملا ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔


انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور صورت حال واضح ہو چکی ہے سب سے بڑے اور اہم صوبے پنجاب میں اور مرکز میں بھی تحریک انصاف کو حکومت سازی کے مرحلے میں ابھی کچھ خدشات ہیں اس لیے وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں عمران خان کا خیال ہے حکومت پر فائز ہونے والے افراد کا انتخاب ایسے افراد میں سے کیا جائے جو جذبہ حب الوطنی اور عوام کی فلاح و بہبود کے جذبوں سے سرشار ہوں اور رب العزت اور رسول اکرم ﷺ کے احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتدار کے مشکل راستے پر آسانی سے چل سکیں۔عمران خان اور ان کی پوری ٹیم کو چاہے وہ مرکز میں ہو یا کسی صوبے میں پورے ہوش و حواس میں رہ کر اپنے قول و فعل کے آئینے میں دیکھ کر قدم اٹھانا ہوں گے اگر کہیں کسی سبب قدم لڑکھڑائے تو سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔ سب سے پہلے عوامی خواہشات اور توقعات جو انتخابی محاذ آرائی میں پیدا کردی گئی ہیں ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مخالف تو مخالف اپنے بھی بد دل ہوسکتے ہیں آنے والے حکمرانوں کے ہر ہر قدم پر اپنے ہی لوگوں اور اپنے مخالفین کی کڑی نظریں تو جمی ہی ہیں لیکن عالمی قوتیں بھی ان کی کڑی نگرانی کر رہی ہیں کیونکہ عمران خان کے بیانات ان کی سوچ و فکر سے مختلف ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے مزاج میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ نئے آنے والے حکمرانوں کو قوت فیصلہ عطا کرے اور جیسا وہ کہہ رہے ہیں انہیں کرنے کی توفیق بھی دے پاکستان یقیناََ آئینی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے لیکن تمام غیر مسلم قوتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان خالص مسلم حکومت بنے اللہ وطن عزیز کا اور اہل وطن کا نئے آنے والے حکمرانوں کا محافظ ہو اور ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے، آمین۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین