• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی جتنا مرضی اختلاف کرے مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ موجودہ حکومت نے قوم کو صابر اور شاکر بنادیا ہے جبکہ ”قناعت پسندی“ ایک اضافی وصف کے طور پر بڑی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اہل خرد جانتے ہیں کہ قوموں کا مزاج بدلنے کیلئے صدیاں قربان کرنا پڑتی ہیں‘ عمریں کھپانا ہوتی ہیں مگر صدیوں کا کام محض ان گزرے ساڑھے چار برسوں میں کر دکھانا کسی طور کرامت سے کم نہیں ہے۔
صابروں اور شاکروں کے مرتبے کو پہنچی ہوئی اپنی قوم کے حوالے سے مجھے وہ بدصورت شخص یاد آگیا جس کی شادی ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی سے کردی گئی تھی‘ جس نے ایک روز اپنی بیوی سے کہا تھا کہ ”بلو“ تمہیں پتہ ہے ہم دونوں جنتی ہیں۔
بیوی نے کہا وہ کیسے؟ تو شوہر نے کہا تھا کہ ”میں تمہیں دیکھ دیکھ کے اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں اور تم مجھے دیکھتی ہو تو صبر کرلیتی ہو‘ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ صابر اور شاکر جنت میں جائیں گے“۔ جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں!!سو دیکھا جائے تو ہم سب من حیث القوم جنت میں جائیں گے کیونکہ اتنی صابر اور شاکر قوم کی نظیر کہیں نہیں ملتی جو دودھ اور شہد کے ملنے کی امید پر پینے والے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے اور صبر کئے ہوئے ہے۔ ہفتے میں چار دن CNG نہیں ملتی مگر مجال ہے جو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے پائے‘ پانچویں روز جب CNG کا در‘ وا ہوتا ہے تو عوام کی آنکھوں میں شکرانے کی تراوٹ عود آتی ہے۔ گیس بندش کے ان چار دنوں میں ٹانگے، ٹیکسیاں اور رکشے والے یہ کہہ کر دگنا تگنا کرایہ مانگتے ہیں کہ ”وہ آج پٹرول پر ہیں“۔حالانکہ ٹانگہ کسی بھی ملک میں CNG پر ہے اور نہ ہی گھوڑا پٹرول پر‘ بہت پہلے ایک دفعہ دوران گفتگو اعجاز الحق نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ ”بے حس“ قوم ہے تو میں نے انہیں اس قسم کے تبصروں سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم بے حس نہیں‘ بے بس ہے اور بے بسی کو اگر وسیع النظری سے قناعت پسندی کے تناظر میں دیکھیں تو بات صبر تک جاپہنچتی ہے‘ جو آج ہر ادارے میں کسی نہ کسی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ مسلسل فیصلے دے رہی ہے‘ مگر ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا پھر بھی کسی قسم کے ردعمل کی بجائے عدالت صبر سے کام لے رہی ہے‘ بہت سے قومی اداروں کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے جن میں پی آئی اے‘ اسٹیل مل‘ ریلوے اور اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے شامل ہے لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے‘ کیا بے نیازی ہے۔ صبر کا کتنا اچھوتا انداز ہے‘ کراچی نیول ایریا میں شب خون مارا گیا‘ کامرہ میں سحر گردی ہوئی‘ GHQ پر حملہ ہوا‘ کاکول سے اسامہ بن لادن اٹھایا گیا‘ کس کس بات کا تذکرہ کروں‘ کون سا زخم کریدوں جہاں جہاں نگاہ جاتی ہے صابر ہی صابر قطار اندر قطار دکھائی دیتے ہیں جو سارے کے سارے سینوں پر صبر کے تمغے سجائے دودھ اور شہد کی نہروں کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں، جنت کمانا کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کراچی اور کوئٹہ اس شخص کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو نہ صادق اور نہ ہی امین‘ روشنیوں کے ان شہروں میں سراسیمگی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں‘ مہنگائی اور بیروزگاری کا یہ عالم کہ بچوں کا شور تک تھم گیا ہے برسوں پہلے لاہور کے انار کلی بازار کے بالا خانے پر احسان دانش صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے راولپنڈی کے قمر صدیقی کا شعر سنایا تھا جو آج کے حالات پر صادق آتا ہے کہ:
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
سوچتا ہوں قوم تو صبر اور شکر کے راستے پر چل کر جنت کما گئی مگر حکمرانوں کا کیا بنے گا۔ الیکشن سر پر کھڑے ہیں روٹی کپڑے اور مکان کا زمانہ گزر گیا جیالا‘ متوالا اور مستانہ ازم بھی پکار رہا ہے کہ:
بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب!!
آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب!!
تازہ ترین