• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلف اٹھانے پر سخت سیاسی حریفوں کا مصافحہ خصوصی توجہ کا مرکز

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)نومنتخب ارکان قومی اسمبلی کے حلف اٹھانےکے موقع پر سخت سیاسی حریفوں کا مصافحہ خصوصی توجہ کا مرکزرہا۔عمران خان نے شہباز شریف، آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور سردار ایاز صادق سے ہاتھ ملایا۔قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکین کے حلف اٹھانے کے موقع پر کم از کم چار ایسے مواقع آئے جب سیاسی رہنمائوں کا آپس میں ہاتھ ملانا خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔تاہم کچھ سیاسی رہنمائوں کا ہاتھ ملانا گو کہ ضروری تھا، لیکن ممکن نہ ہوسکا۔جس کی وجہ ایک دوسرے کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا ہے۔یہاں تک کے پارلیمنٹ کے نومنتخب ایوان زیریں کے افتتاحی سیشن میں بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔سب سے زبردست مصافحہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے درمیان ہوا۔دونوں کے درمیان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ غیر متوقع تھا۔ شریف برادران اور عمران خان کے درمیان سیاسی تنائوپانچ سال سے برقرار ہے، جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔تاہم کچھ لمحوں کے لیے انہوں نے اظہار مسرت ضرور کیا۔آصف زرداری اور عمران خان کے درمیان مصافحہ بھی توجہ کا مرکز رہا، ایک دوسرے پر کی جانے والی سخت تنقید کے سبب کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ کبھی آپس میں ہاتھ ملائیں گے۔ایک اور اہمیت کا حامل مصافحہ عمران خان اور بلاول بھٹو کے درمیان ہوا۔قومی اسمبلی کے فوٹوگرافر نے ان سے فوٹو کھنچوانے کی درخوا ست کی تھی، جسے دونوں نے بخوشی قبول کرلیا، حالاں کہ ان کی ایک دوسرے پر کی جانے والی تنقید اب بھی ذہنوں میں موجود ہے۔اسی طرح عمران خان اور سردار ایاز صادق کے درمیان ہونے والا مصافحہ بھی معمولی بات نہیں تھی کیوں کہ 2013کے عام انتخابات میں لاہور کی سیٹ کے حوالے سے دونوں میں سخت تلخی رہی تھی ، یہاں تک کے سردار ایاز صادق کو سیٹ بھی چھوڑنا پڑی تھی ، لیکن پھر انہوں نے ضمنی انتخابات میں علیم خان کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرلی تھی۔شیخ رشید اور ایاز صادق کے درمیان ہونے والا مصافحہ بھی اہمیت کا حامل رہا۔شیخ رشید مسلسل ایاز صادق پر تنقید کرتے رہے اور ہمیشہ یہ شکایت کرتے تھے کہ اسپیکر انہیں اظہار رائے کے لیے مناسب وقت نہیں دیتے تھے۔ہمار ے ہاں سیاسی تنقید اکثر دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، ایسے میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا اہمیت کا حامل رہا۔البتہ اس کے برعکس شہباز شریف اور آصف زرداری نے آپس میں مصافحہ نہیں کیا۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے 25جولائی کے انتخابات کے بعد حزب اختلاف کے طور پر مل جل کر کام کرنے کے لیے کئی اجلاس کیے ہیں ، تاہم شہباز شریف اور زرداری یا بلاول کے درمیان براہ راست کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ بظاہر طرفین جان بوجھ کر اکٹھے بیٹھنے سے اجتنا ب کرتے رہے ہیں۔زرداری کے حوالے سے نواز شریف کی پالیسی ہمیشہ ہی شہباز شریف سے مختلف رہی ہے۔ شہباز شریف نے حزب اختلا ف کی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی ہے ، تاہم اب تک زرداری یا بلاول نے ایسا نہیں کیا۔البتہ گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفاتر کے باہرحزب اختلاف کی ان تمام جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی پر احتجاج کیا تھا۔ان مصافحوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے اختلافات ہمیشہ کے لیے ختم کردیئے ہیں۔یہ ایک عارضی لمحہ تھا ، جسے کچھ لوگ کھونا نہیں چاہتے تھے۔ہاتھ نہ ملانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں وہ سیاست میں بھی ایک دوسرے سے دور رہیں گے۔ سیاست میں ایسی بےتحاشہ مثالیں موجود ہیں ، جب سیاسی حلیف وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین